’’رئیس‘‘ کی بندش

آج کل برصغیر کے رئیسوں کو بھی اپنے بگڑے ہوئے نظام میں انتشار اور غنڈہ گردی کے ابھرنے سے بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کے وار سہنے پڑتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین ایکٹروں میں شمار ہونے والے شاہ رخ خان کو بھی اپنی نئی فلم رئیس کو سینما گھروں کی زینت بنانے اور اس موذی وار کو زائل کرنے کے لیے شاید بھاری رقوم صرف کرنا پڑی ہیں۔ بھارتی شاونزم اور مذہبی جنون کے جبر والے مہاراشٹر کے ان داتا راج ٹھاکرے کو رام کرنا پڑا ہے۔ اس کی مذہبی فرقہ پرور ”پارٹی‘‘ مہاراشٹرا نونرمان سینا (MNS) کے غنڈوں نے فسطائی جبر سے اس فلم کی نمائش رکوانے کی دھمکی دے دی تھی ۔اس کی وجہ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کو اس فلم میں کاسٹ کرنا بتائی گئی تھی۔ ظاہری طور پر جو اخباری بیانات دیے گئے ان کے مطابق شاہ رخ خان نے ٹھاکرے کو یہ وچن دیا کہ ماہرہ خان نہ تو اس فلم کی تشہیر کے لیے بھارت آئیں گی اور نہ ہی آئندہ شاہ رخ کسی پاکستانی فنکار کو اپنی فلم میں کاسٹ کریں گے۔ سب جانتے ہیں کہ اس مذہبی جنونیت کے کاروبار اور مایہ کے اس نظام میں سارا مسئلہ لوٹ مار اور دولت کے حصول کا ہوتا ہے۔ ان کے مذہبی و نسلی و حب الوطنی اور قومی جذبات صرف ظاہری دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں۔ اب یہ پتا نہیں چل سکا کہ یہ ڈیل ہوئی کتنی رقم میں ہے! پاکستان دشمنی اور مذہبی منافرتیں ہندو مذہبی پارٹیوں کے لئے مال لوٹنے اور بھتہ خوری کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔

اگر ہندوستان میں ان رجعتی قوتوں نے یہ کھیل شروع کررکھا ہے تو پاکستان میں ایسی قوتیں بھلا کیسے پیچھے رہ سکتی ہیں۔ ان منافرتوں پر ہی تو رجعتیت ایک عرصے سے ان ممالک کی سیاست اورمعاشرت پرحاوی ہے۔ لیکن یہاں واردات سینسر بورڈ نے کی ہے۔ماہرہ خان تو کسی ایسے ان داتا کے پاس جانے سے رہی جو فلم چلوانے کے بدلے نہ جانے کیا مطالبے کر دے۔ بھارتی فلموںمیں مسلمانوںپر شراب، سملنگ اور دوسرے ”جرائم‘‘میں ملوث ہونے کا بہتان بڑا ہی بے معنی اورمصنوعی سا لگتا ہے۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں سینکڑوں ایسی فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں ”پاکستانی مسلمانوں‘‘ کے یہ کردار کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ لیکن پچھلے70 سالوں میں ان وجوہات کی بنا پر کس فلم کو سینسر کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا؟ ضیا الحق کے دور سے، جب پاکستانی فلمی صنعت برباد ہونا شروع ہوئی تو ان40 سالوں میں صرف ایک ہی ایسی فلم”مجاجن‘‘ تھی جو درحقیقت کامیا ب ہوئی تھی۔ باقی پاکستانی فلموں کے بارے میں سب تعریفیں خانہ پری اور لفافہ گیری کے قصیدے ہیں۔ مجاجن فلم کا شاید ہی کوئی ایسا سین ہو جس میں اس فلم کے ہیرو ”شاہ جی‘‘ نے شراب کے نشے کے بغیر کسی منظر میں انٹری ڈالی ہو۔ لیکن کون پوچھتا ہے؟ کس نے اپنے اوپر کوئی فتویٰ لگوانا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ درپردہ کوئی نہ کوئی مالیاتی لین دین کا مسئلہ ہوگا جس کی وجہ سے”رئیس‘‘ پر پابندی لگا دی گئی۔ اور ذرا یہ المیہ تو ملاحظہ کیجیے کہ ہندو بنیاد پرستوں نے شاہ سے بھاری مال بٹور کر بھی فلموں کے ریلیز ہونے کے بعد یہ پیغام دیا کہ ہندوستان کے عوام ”رئیس‘‘ کی بجائے ”قابل‘‘ کو دیکھیں اور پاکستان میں سینسر بورڈ نے قابل کو تو پاس کردیا اور رئیس کو ہی کاٹ دیا۔ توجیحات تو ہر چیز کی دی جاتی ہیں، اس لیے سب جانتے ہیں کہ مسئلہ ہی کہیں اور ہے۔

پاکستان کے اہم اخبارات کے سروے اور رائے عامہ کے مطابق رئیس کی سینسرشپ کے خلاف بھاری اکثریت ووٹ کر رہی ہے جبکہ اس کے حق میں ایک قلیل اقلیت کی رائے آئی ہے۔ ویسے رئیس کوئی روشن خیالی اور ترقی پسندانہ نظریات یا سوچوں کو فروغ دینے والی فلم نہیں ہے۔ بس ”تھرلرمووی‘‘ ہی پچھلی چند دہائیوں سے ”ہٹ‘‘ ہو رہی ہیں۔ لیکن اس ملک میں عام لوگوں کے لیے کسی تفریح کے مواقع بہت ہی ناپید ہیں۔ دولت مندوں کے لیے ہرقسم کی تفریح موجود ہے، لیکن چونکہ وہ اپنی لوٹ کھسوٹ کے لیے اسی سماجی رجعتیت کو استعمال کرتے ہیں اس لیے وہ یہ سارے کام چھپ چھپا کرکرتے ہیں۔ حکمرانوں کے محلات میں کونسی ایسی عیاشی ہے جو نہیں ہوتی لیکن وہ ظاہری طورپرجس نیکی اورخیرات کا ناٹک کرتے ہیں وہ منافقانہ اقدار کے تسلط زدہ معاشرے میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان کے ”پبلک امیج‘‘ کا حصہ ہے جوان کے کاروبار اوراستحصال کے فروغ کے لیے درکار ہوتا ہے۔ حکمران طبقات کے اس دوہرے معیاروں والے کردار سے سماج میں منافقت اور فریب کادور دورہ ہے جس کی عکاسی ہر شعبے میں بھی پائی جاتی ہے۔

جب کسی معاشرے کا اقتصادی اورسماجی نظام زوال پذیر ہو جاتا ہے تو اس کی ثقافت،تہذیب،رویوں اورعادات واطوار بھلا بلند معیار کے کیسے ہوسکتے ہیں۔ان کی تنزلی سے معاشرے میں جو بحران،تلخی اور بدتمیزی پھیل رہی ہے ان کا ہر کوئی شکار ہے۔ عوام اس سے تنگ ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔ ادب ،فلم، موسیقی اور فنون میں گراوٹ واضح محسوس ہوتی ہے۔ یہ صرف اسی معاشرے میں نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں ہالی ووڈ میں فلم ڈائریکٹروں اور ایکٹروں کے لیے ایک بدنام زمانہ تحریک ”میکارتھی ازم‘‘ چلی تھی۔ جب کسی فلم میں اس نظام کے خلاف کوئی بھی کاوش کی جاتی تو ان کے تخلیق کاروں کو کمیونسٹ قرار دے کر ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔ بالی ووڈ کی یہ مثال ہمیں برصغیر اور دنیا کے بیشتر ممالک میں بہت ملتی ہیں۔ لیکن آج کے انٹر نیٹ دور میں سینسر شپ سوائے عوام کوسہل تفریح کرنے سے روکنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس بندش سے پیشتر بھی اس فلم کے شوقین اس کو ”ڈائون لوڈ‘‘ کرکے دیکھ چکے تھے۔کیا سینسر بورڈ انٹرنیٹ،یوٹیوب اور دوسرے ایسے تکنیکی طریقے بندکروانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ اس بندش سے جنہوں نے یہ فلم نہیں دیکھنی تھی وہ بھی ”ڈائون لوڈ‘‘ کرکے ضرور دیکھیں گے۔ لیکن اس سینسر بورڈ کو منتخب کس نے کیا ہے؟ ان کی نظریاتی سوچ کا پیمانہ کیا ہے؟ ان کا فن کے شعبوں پر عبورکتنا اور تحقیق کیا ہے؟

جب حکمران ایسے محکموں کے لیے اپنے آدمی لگاتے ہیں تو ان کا معیار نہیں دیکھا جاتا بلکہ وہ ان افراد کی مالی حیثیت اور اپنے اغراض ومقاصد کے مطابق ان کو عہدے دیتے ہیں۔ یہ غیر منتخب اور حکمرانوں کی پسند کے افراد اپنے رجعتی معیاروں سے فلمیں بند کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ انڈین، پاکستانی اور ہالی ووڈ کی فلموں کا معیار بہت گر گیا ہے۔ رئیس بھی شاید کوئی انقلابی فلم نہیں ہوگی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں بہت سی معیاری اور انقلابی فلمیں بنا کرتی تھیں جن سے شعور اور احساس کو اس ظلم کے نظام سے آزادی کے پیغام ملتے تھے، وہ بننا کیوں بند ہوں گئیں؟ گیتوں ،موسیقی، ڈائریکشن اورایکٹنگ کا معیار کیوں اتنے گر گیا؟جب معاشرہ زوال کا شکار ہوتا ہے تو اس کے تمام معیار، اقدار، تہذیب وتمدن، ثقافت اور اخلاقیات کی تنزلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ جبر یا پابندیاں اور رجعتیت کے ذریعے معاشروں کو طویل عرصے تک جکڑ کر نہیں رکھا جا سکتا۔ روٹی،کپڑا، مکان ،تعلیم ،علاج اور روزگار ،بجلی ،پانی اور نکاس کی طرح تفریح بھی انسان کا معاشرتی حق ہے، کوئی مراعات نہیں، لیکن یہ نظام جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں یہ صرف دکھ، درد ، گھٹن اور اندھیر ہی دے رہا ہے۔ اس کو بدلنے کے لیے جس انقلاب کی ضرورت ہے اس میں فلم ،آرٹ، ادب، شاعری اور دوسرے فنون لطیفہ کا بھی اہم کردار بنتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے