ایک چھوٹی سی یادداشت

میں 75 میں وہ پلاننگ کمیشن میں تھا اور میری ڈیوٹی مانیٹرنگ کیلئے ڈی آئی خان کے قریب تھی ۔

شہید بھٹو بھی وہیں وزٹ پر آئے اور پوچھا تم یہاں کیا کر رہے بتایا مانیٹرنگ پر آیا ہوں۔ تمام افسران کو کمرے سےباہرنکال کر پوچھا کیا دیکھا؟

میں نے کہا انتہائی غربت اور انسانی ذلت،

بولے مجھے دکھاؤ گے ؟
میں نے کہا ضرور.

اگلے دن میں بھٹو صاحب کا نوائے لیڈ کرتا انہیں ڈی آئی خان کی ٹانک روڈ پر لے گیا ۔

ایک پتلی سی سڑک تھی اور دونوں اطراف ریگستان، وہاں ریت میں کچھ جھگیاں تھیں اور ایک بوڑھی عورت الٹے توے پر روٹیاں بنا رہی تھی، شہید بھٹو اسکے پاس جا بیٹھے اور مائی کے سر پر دست شفقت رکھا اور پوچھا مائی مجھے روٹی کھلاؤ گی مائی نے کہا کیوں نہیں

میں نے مائی کو بتایا کہ یہ بادشاہ ہے ، مائی نے بڑے غور سے بھٹو شہید کو دیکھا۔

شہید بھٹو نے روٹی کا نوالہ منہ میں رکھا تو انکی آنکھیں غصہ سے سرخ ھو گئیں اور پھر اپنی ٹیم کے لوگوں کی کلاس لیتے ہوئے انھیں کہا کے تم لوگ بھی یہی روٹی کھاؤ جو کسی انسان سے کھانا ممکن نہیں ۔شہید بھٹو نے کہا یہ تم لوگ عوام کو کھلاتے ہو؟

مائی سے پوچھا اور کون ہے تمھارے ساتھ، مائی بولی میرا خاوند، میرا بیٹا اسکی بیوی اور دو بچے

شہید بھٹو نے پوچھا نظر نہیں آرہے

مائی نے کہا خاوند لکڑی بیچنے ملتان گیا ہے، بیٹا بھی اسکے ساتھ ھے، بہو میری لکڑیاں کاٹنے گئی ہے اور دونوں بچے ماں کی مدد کے لئے ساتھ

شہید بھٹو نے پوچھا مائی گزر اوقات کیسے ھوتی ہے ؟

مائی نے کہا آٹھ آنے بنا لیے ہیں مہینے کے

شھید بھٹو نے اپنی جیب سے جو دو تین ہزار نکلے مائی کو دئے اور ڈی سی کو کہا فوری طور پر اسکے بیٹے کی نوکری کا بندوبست کرو اور کل مجھے رپورٹ دو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے