ایکٹ 74ء،معاہدہ کراچی اورکشمیری قوم

ہم میں سے نام کی حد تک تو اکثرکشمیریوں نے ایکٹ 74اور معاہدہ کراچی کا تو سن رکھا ہے لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں یہ کیا چیز ہے
ان کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں ؟کس طرح ایکٹ 74 نے کشمیری قومی کی غلامی پے مہر ثبت لگائی ہے؟ اکثریت کو اس کا علم بھی نہیں ہے اور نہ ہی نئی نسل اس کو جاننے کی کوشش کررہی ہے۔
لیکن وہ جاننے کی کوشش کربھی کس طرح کر سکتی ہے ؟؟

کیوں کہ ہمارے گلوں میں غلامی کے طوق پہنا دیے گے ہیں اگر کوئی غلامی کا طوق اتارنا چاہتا ہے تو پہلے تو اسے غدار ایجنٹ کہا جاتا ہے ۔ اگر پھر بھی دال گلتی نظر نہ آئے تو اس پردہریہ ہونے کا الزام اور کفر کا فتوی لگا دیاجاتا ۔

اگران فتووں کے آگے بھی وہ کافر اور ایجنٹ باز نہ آئے تو اسے ڈرا دھمکا کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔

لیکن اگر پھر بھی وہ دہریہ ایجنٹ راہ راست پے پھر بھی نہ آئے اور نہ ہی اس کا آنے کا کوئی دور دور تک کوئی امکان ہو تو پھرآگے آپ خود سمجھدار ہیں ۔

بحث دوسری طرف نکلی جا رہی ہے اس سے پہلے کے یہ بحث کچھ اور رنگ اختیار کر لے میں اپنے اصل موضوع پے آتا ہوں۔ جو ایکٹ74 اور کراچی معاہدہ ہے ۔

میں بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح ایکٹ 74 اور معاہدہ کراچی کے تحت کشمیری عوام کو غلامی کے دلدل میں اتارا گیا ہے ؟کس طرح ان سے انکے اختیارات سلب کر لیئے گے ہیں ؟کس طرح اُنکے حقوق غصب کیئے گے ہیں ؟؟اب عوام کو شعور پکڑنا ہوگا غلامی کی چادر اتار پھینکنی ہوگی اس ظالمانہ ایکٹ اور کراچی معاہدے کے خلاف پوری قوم کو یک جان ہوکر آواز اٹھانی ہوگی ۔عوام کو خود اپنے اختیارات کے حصول کے لیئے نکلنا پڑے گا ۔

کشمیری قوم حکمرانوں کی طرف نہ دیکھے اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں اور لیڈروں سے کسی قسم کی امید رکھی جائے کہ یہ حکمران آپ کو اختیارات دلوائیں گے ۔

ہمارے کشمیری حکمرانوں اور لیڈروں کی مثال وکیل کے منشی کی طرح ہے جس طرح منشی وکیل کے آگے یس سر یس کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی اپنے وکیل کے آگے یس سر یس سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور نہ ہی یہ آنکھ اٹھا کر بات کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں ۔

مجھے اپنے کشمیری لیڈروں اور حکمرانوں کو وکیل کے منشی کہتے ہوئے ذرا بھی جھجھک نہیں کیونکہ یہ حقیقت میں بھی یہ وکیل کے منشی اور غلام ابن غلام ہیں ۔دیکھو کشمیریو ! کس طرح تمہیں ایکٹ 74 اور کراچی معاہدے کے تحت غلام بنایا گیا ہے لیکن ہم پھر بھی غفلت کی چادر تانے سوئے ہوئے ہیں اور انہیں کو اپنا مسیحا مان رہے ہیں جنہوں نے ایک ہاتھ دیکھا کر دوسرے ہاتھ سے تھپڑ مارا ہے ۔

کشمیری قوم اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے ہوئے دیکھیں معاہدہ کراچی میں کس طرح ریاست جموں وکشمیر کو ایک میونسپل کارپورشن بنایا گیا۔
اور اُس وقت کون کون سے اہم اختیارات حکومت پاکستان نے اپنے انڈر کر لئے ۔

1. دفاع
2. آزاد کشمیر کی خارجہ پالیسی۔
3. اقومِ متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان کے ساتھ مذاکرات۔
4. پاکستان اور بیرونی دنیا میں نشر و اشاعت۔
5. مہاجرین کی آبادکاری اور بحالی کے معاملات کا انتظام و انصرام۔
6. رائے شماری کے ضمن میں نشر و اشاعت کا انتظام و انصرام۔
7. پاکستان کے اندر تمام ریاستی معاملات مثلا مہاجرین کے کیمپوں کے لیئے خوراک، ادویات و علاج معالجے اور دیگر اشیائے ضرورت کی فراہمی کا انتظام و انصرام۔
8. گلگت اور لداخ کے تمام انتظامی معاملات پر پولیٹیکل ایجنٹ کا مکمل کنٹرول پاکستان نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

صرف کراچی معاہدے پر ہی بس نہ کیا گیا بلکہ اس کے بعد بھٹو صاحب اپنے دور اقتدار میں غلامی کی رہی سہی کسر ایکٹ 74 کے ذریعے پوری کردی ۔

ایکٹ 74میں 54مختلف شعبوں میں آزادجموں و کشمیر کی حکومت سے اختیارات لے کر کشمیر کونسل کو دے دیئے گئے

( یاد رہے کہ یہ کشمیر کونسل بھی پاکستان کا ادارہ ہے اور اس کے چئیر مین پاکستان کے وزیر اعظم ہیں) ان اختیارات میں ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جیسا اہم اختیار بھی شامل ہے

مطلب یہ کہ کشمیری وزیر اعظم اور صدر اپنی ریاست کے ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر نہیں کرسکتے ۔

اس کے علاوہ بھی اس منحوس ایکٹ 74میں آزاد کشمیر سے بجلی و پانی پیدا کرنے کے اختیارات ، سیاحت ، آبادی کی منصوبہ بندی ،بینکنگ انشورنس،سٹاک ایکسچینج اور مستقبل کی منڈیاں ،تجارتی ادارے ،ٹیلی مواصلات ، معاشی ربط کیلئے منصوبہ بندی ، ہائی ویز ،کان کنی ،تیل وگیس ، صنعتوں کی ترقی اور اخبارات کی اشاعت کا اجازت نامہ بھی پاکستانی ادارے کشمیر کونسل سے لینا بھی لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے… اس کے علاوہ آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کی آمدنی کے بڑے ذرائع انکم ٹیکس سمیت دیگر بہت سے ٹیکس جمع کرنے کا اختیار بھی پاکستانی ادارے کشمیر کونسل کو حاصل ہے ..۔

اس کے علاوہ , چیف الیکشن کمشنراور آڈیٹر جنرل کی تقرری کے اختیارات بھی چیئرمین کشمیر کونسل ( وزیر اعظم پاکستان )کو دیے گے ہیں۔
مطلب اس ایکٹ کے تحت آزاد حکومت کے تمام بنیادی اختیارات کشمیر کونسل کے سپرد ہیں۔
ایکٹ 74 اور معاہدہ کراچی جیسے جعلی معاہدوں کی وجہ سے آزاد جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری کی حیثیت تقریبا ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

ان ظالمانہ ایکٹوں اور جعلی معاہدوں سے جان چھڑانے کا ایک ہی حل ہے کہ عوام یک جان ہو کر باہر نکلے اور ان ظالمانہ ایکٹوں اور معاہدوں کو پاوں کی ٹھوکر پر رکھتے ہوئے اپنے اختیارات واپس لے ، اگر کشمیری عوام نے غفلت کی چادر نہ چھوڑی تو یاد رکھنا جیسے تمہارے آباواجداد نے غلامی کی زندگی بسر کی ہے ویسے ہی تمہاری نسلیں بھی کریں گی۔

اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا کوئی غداری نہیں ہے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کے لئے آپ کو آپ کا مذہب اور ریاست کا قانون بھی اجازت دیتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے