مقبول بٹ شہید کیوں عظیم ہیں؟

اللہ تعالیٰ قادر و مطلق ہے وہ جسے چاہتا ہے موت عطا کرتا ہے اور جسے چاہے زندگی عطا کردیتا ہے زندگی اور موت پر خدائے رب ذوالجلال کا مکمل اختیار ہے لیکن اس بنی نوع انسان کو زندگی اور موت کے درمیانے عرصہ حیات پر مکمل اختیار دے رکھا ہے انسان چاہے تو محکومی ،بے بسی ،ذاتی مفادات اور ضروریات کی تکمیل کے لئے زندگی صرف کر دے یا پھر اجتماعی ضروریات ، خوشحالی،مقاصد اور انسانی وقار کے لیے برسرپیکار رہے ۔روزانہ ہزاروں نئے روح دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں اور ہزاروں ہی اپنارخت سفرباند ھ کردنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔اجتماعی ،مفادات ،خوشحالی ،عزت اور وقار کے لیے اپنے نظریئے ،سوچ وفکر اور اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے وقت ،مال اور جان قربان کرنے والے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی اپنے افکار ،اعمال اور اعلیٰ کردار سے زندہ رہتے ہیں ۔ایسے انسانوں کے ساتھ وقت کے حکمران ،سامراج اور معاشرہ جو بھی سلوک کر یں تاریخ ناانصافی نہیں کرتی ہے ۔

ایسا ہی ایک نام ریاست جموں وکشمیر کے عظیم سپوت مرد مجاہدمقبول بٹ شہید کا ہے جس نے منقسم ریاست پر بسنے والے انسانوں کے حق خودارادیت،آزادی ،خودمختاری ،خوشحالی اور وقار کے لیے طویل جدوجہد کی اور کسی بھی موقع پر مصلحت کا شکار نہ ہوئے اور بالآخر جان کی قربانی دے دی ۔مقبول احمدبٹ نے غلام قوم کی آزادی کی آواز اس وقت بلند کی جب دنیا کشمیریوں کو بزدلی کے طعنہ دینا شروع ہوگئی تھی ۔ایسے وقت میں دھرتی ماں کا فرزند اٹھا اور اپنے سے سو گنا ہ بڑی طاقت سے ٹکرا گیا ۔مقبول بٹ کا واضح اور دوٹوک موقف تھا کہ میں کشمیر میں جبر ،ظلم ،فرسودگی ،دولت پسندی اور استحصالی قوتوں کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں یہی وجہ تھی کہ مقبول بٹ کو برصغیر کی تقسیم کے بعد وجود میں آنے والی دو بڑی ریاستوں بھارت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بیٹھے اقتدار پسند حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھائے ۔سیز فائر لائن کے دونوں طرف مقبول بٹ کو مختلف مقدمات کا سامنا رہا اور قدم قدم پر صحبتیں اور اسیری برداشت کرنا پڑی ۔لیکن اس مرد مجاہد کے پا ئے استقلال میں لرزش نہ آئی۔ اپنوں اور بیگانوں کی سازش اور پراپیگنڈہ کے باوجود مقبول احمد بٹ عظیم جدوجہد اور قربانی کے بعد سرخرو ہوگئے۔

مقبول بٹ ریاست جموں کشمیرکا پہلا اور شاید آخری فرد ہے جس کا یوم شہادت دنیا کے ہر اس ملک میں بنایا جاتا ہے جہاں ریاست کے باشندے آباد ہیں ۔تحریک آزاد ی کے وہ نام نہاد لیڈر جن کی ساری جدوجہد حصول اقتدار رہی اور اپنے اقتدارکو دوام بخشنے کے لئے وہ مقبول بٹ کو ایجنٹ اور غدارقرار دیتے رہے ۔یہی تاریخ کا سب سے بڑا انصاف ہے کہ33 سال بعد بھی مقبول بٹ کے فلسفہ نظریہ اور سوچ وافکار کے سچے ہونے کاہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ببانگ دہل اظہار کرتے ہیں ۔اور عظیم حریت پسند کو اپنا سچا قائد و رہبر سمجھتے ہیں ۔جبکہ اس کے برعکس اقتدار کے پجاری اپنے اقتدار اور طاقت سمیت تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ مقبول بٹ کو یہ مقام کیوں اور کیسے ملا اور کسی اور کو یہ مقام کیوں نہیں مل سکا ۔مقبول بٹ کا مانناتھا کہ آزادی کشمیری کا قوم کا پیدائشی حق ہے اور یہ حق ہمیں ہمارے پروردگار نے دیا ہے جس نے ہمیں اس سرزمین پر پیدا کیا ہے ۔ایک آزاد قوم کی طرح زندہ رہنا اور آزاد انسانوں کے معاشرے کی طرح اپنے مستقبل کو سنوارنا ،اپنے معاشرے کوبنانا ،اپنی معیشت ،اقتصادی اور سیاسی صورتحال کو بناناہمارا پیدائشی حق ہے ۔آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے دوست اور دشمن کی پہچان ہونا ضروری ہے ۔ہمیں معلوم ہونا چاہئے ہمیں کون غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے ہر وہ شخص،انسان ،حکومت اور ریاست جو ہمارے حق خودارایت کی مخالفت کرے گا ہم اس وقت تک اس کے خلاف لڑتے رہیں گے جب تک ہم فتح سے ہمکنار نہیں ہوجاتے ۔

مقبول بٹ کے نظریہ اور فلسفہ کے مطابق کشمیرکی آزادی کے لیے سیاسی اور سفارتی محاذ پر جدوجہد کے ساتھ عوامی مسلح جدوجہد بھی ناگزیر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مقبول بٹ کشمیر میں گوریلا جنگ کے بانی ہیں ۔مقبول بٹ کا موقف تھا کہ کسی قابض فوج کے خلاف روائتی جنگ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ عوامی مسلح جدوجہد سے قابض فوج کو کمزور کیا جاتا ہے ۔مقبول بٹ کے بنیادی نظریہ کے مطابق بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو عوامی مسلح جدوجہد کے لیے امادہ کر کے منظم اور تیار کیا جائے اور ہم یہاں سے ان کو بیک کریں ۔مقبول بٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ جو فلسفہ اور نظریہ پیش کیا اس پر آخر دم تک قائم رہے ۔مقبول بٹ کی پہلی اورآخری ترجیح ریاست جموں کشمیر کی قومی آزادی تھی ۔کشمیر کی تاریخ میں مقبول بٹ شہید جیسا کمٹیڈ لیڈر شاید ہی ہوں ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی عدالت سے سزائے موت کا فیصلہ اور سرینگر جیل سے فرار ہونے کے بعددوبارہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پلٹ جانا شہید کشمیر کی عظمت کو مزید چارچاند لگاتا ہے ۔

مقبول بٹ شہید نے ہمیشہ کشمیر ی قوم کو اتحاد و اتفاق کا درس دیا ۔مگر آج المیہ یہ ہے کہ مقبول بٹ کے پیروکار بھی تقسیم در تقسیم ہیں ۔آج صورتحال یہ ہے کہ شہید کشمیر مقبول بٹ کے یوم شہادت کی تقریبات بھی علیحدہ علیحدہ منعقد کی جاتی ہیں ۔وقت کا تقاضا یہ ہے اتحاد اتفاق قائم کیاجائے اور مقبول بٹ کے نظریہ اور فلسفہ کے مطابق تحریک آزادی کو آگے بڑھایا جائے ۔اسی سے اجتماعی خوشحالی آئے گی اور انفرادی زندگی بھی روشن و تابناک ہوگی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے