’لاپتہ فرد کی معلومات تین دن میں دینے کی پابندی‘

پاکستان کے ایوانِ بالا کی خصوصی کمیٹی نے اطلاعات تک رسائی کے حق یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن بل 2016 کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے۔ کمیٹی نے تین رکنی انفارمیشن کمیشن تشکیل دینے کی بھی منظوری دی ہے جس کے ارکان کا تقرر وزیراعظم کریں گے۔ اس بل کے تحت تمام متعلقہ ادارے پابند ہوں گے کہ وہ کسی بھی لاپتہ شخص کی اطلاع تین دن میں تحریری طور پر جمع کروائیں۔

اس کے علاوہ بل میں ’وسل بلوئرز‘ یا کسی بھی ادارے ميں بدعنوانی کی نشاندہی کرنے والے شخص کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی بھی بات کی گئی ہے۔
بل میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق معلومات کو روکا نہیں جا سکے گا تاہم قومی سلامتی اور عالمی تعلقات سے متعلق حساس معلومات کو عام نہیں کیا جائے گا۔ منگل کو سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فرحت اللہ بابر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پاس کیا جانے والا بل حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا جبکہ کمیٹی میں تمام جماعتوں کو نمائندگی حاصل تھی۔ اطلاعات تک رسائی کے حق کے بل کا کمیٹی کے اجلاس میں شق وار جائزہ ليا گيا۔

اراکين نے انفارمیشن کميشن کے ممبران کی تعیناتی پبلک سروسزکمیشن کے ذریعے کرنے کی تجویز پر اتفاق کیا۔ یہ ارکان عدلیہ، بیوروکریسی اورسول سوسائٹی سے ليے جائيں گے۔اِن اراکين کي تقرری وزيراعظم کریں گے جبکہ برطرفی کا اختيار قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کميٹی کے پاس ہوگا۔ اگر کسی سکیورٹی کے ادارے میں کرپشن ہے تو وہ اُس اطلاع کو محض اِس وجہ سے نہیں روک سکے گا کہ یہ تو سکیورٹی کا ادارہ ہے۔

اس کے علاوہ کسی بھی ادارے ميں بدعنوانی کي نشاندہی کرنے والے شخص کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ اس کے خلاف کاروائی بھی نہيں ہوسکے گی۔
رائٹ ٹو انفارميشن کے تحت عام معلومات کے حصول میں ایک ماہ جبکہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق معلومات تک رسائی کے لیے تین دن کا وقت ہوگا۔
اِس مجوزہ بل کے تحت کوئی بھی سکیورٹی ادارہ اگر کسی معاملے میں معلومات خفیہ رکھنا چاہتا ہے تو وہ تحریری درخواست دے گا جس پر 30 دن کے اندر متعلقہ ادارہ معلومات فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔ کمیٹی کے چیئرمین فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر کسی سکیورٹی کے ادارے میں کرپشن ہے تو وہ اُس اطلاع کو محض اِس وجہ سے نہیں روک سکے گا کہ یہ تو سکیورٹی کا ادارہ ہے۔

اُنھوں نے کہا ‘اگر کسی شخص کو اُٹھا کر لے گئے ہیں، اُس کو مار دیا گیا ہے، اُس کی زندگی ختم ہو گئی ہے تو اُس صورت میں یہ نہیں کیا جائے گا کہ جناب یہ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم یہ معلومات آپ کو نہیں دے سکتے۔‘ اُنھوں نے بتایا کہ اِس مجوزہ بل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو لاپتہ افراد ہیں اُن کے بارے میں ہر شہری کو اِس بات کا حق ہے کہ وہ معلوم کر سکے کہ آیا کسی سکیورٹی ادارے نے تو اُسے نہیں اُٹھایا۔

پاکستان کی وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے پاکستان کی سلامتی اور قومی مفاد کو اس قانون کے ذریعے محفوظ بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق ایسی معلومات جن سے عالمی تعلقات متاثر نہیں ہوتے وہ عام کی جاسکیں گی۔ اُنھوں نے کہا ’حکومت اِس بل کو قومی اسمبلی کے اگلے ہی اجلاس میں پیش کرے گی۔ اِسے پہلے ہی پیش کیا جانا تھا لیکن جب اِس بل پر مشاورت شروع ہوئی تو پھر ملتوی کر دیا گیا اب جب کمیٹی نے منظور کر لیا ہے تو اِسے فوراً پیش کریں گے۔‘ سینیٹ کی منتخب ارکان کی کمیٹی سے منظوری کے بعد یہ بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا اور وہاں سے منظور ہو جانے کے بعد اِسے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ بل سینیٹ کمیٹی میں متفقہ طور پر منظور ہوا ہے اِس لیے امکان اِس بات کا ہے کہ اِسے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے