ملکی ترقی کا ”چالاک” ورژن

روز نیا سروے ہو رہا ہے، ایسے ایسے عالمی جرائد سامنے آ رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔۔ ہم اس ملک میں رہتے ہیں ہمیں اس ترقی کی خبر ہی نہیں ہوئی ایسی چالاک ترقی ہے جو چپکے سے آئی ،ملک کو خوشحال بنایا اور اس کی خبر اس ملک میں رہنے والوں کو نہیں ہوئی مگر سات سمندر پار شائع ہونے والے جرائد کو پتا چل گیا۔

ابھی تو آئی ایم ایف کی اسحاق ڈار کو بہترین وزیر خزانہ قرار دینے کی تردید کی مٹی بھی نہیں سوکھی تھی کہ سارے ملک کو بذریعہ اخبار و ٹی وی چینلز معلوم ہوا ملک میں ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے، میرے کئی دوست اس ترقی کو دیکھنے قلعہ سیف اللہ سے لے کر چیچوں کی ملیاں تک آئے مگر انہیں کچھ نظر نہیں آیا، اب وہ اپنی بینائی کا معائنہ کروانے دوبئی گئے تو کہنے لگے یہاں آکر علاج کرائے بغیر ہی صاف دکھائی دے رہا ہے۔

معاشی ترقی دوبئی، ابوظہبی ، العین اور شارجہ میں دکھائی دے رہی ہے۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بھارت یا امریکہ نے کوئی ایسی رکاوٹ ڈال دی ہے جس کے باعث لوگوں کوترقی نظر نہیں آتی۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک سے ایسے بادل دور کرنے کے لیے کوئی اینٹی رکاوٹ سسٹم لگائے۔

کل ہی مجھے ایک سرکاری ذرائع سے ملنے والی امریکی جریدے کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ پاکستان کا سال 2030 میں دنیا کی بیس مضبوط ترین معیشتوں میں شمار ہو گا۔جس اعلیٰ ترین کمپنی کے مینیجر نے یہ انٹرویو دیا اس نے کہا لوگ بھارت کو چھوڑ کر پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ان تینوں ممالک کے چار سو نوے ملین افراد جنوبی ایشیا کی ابھرتی معیشت میں اہم کردار ادا کریں گے۔

ان تبدیلیوں سے اب لوگ جل رہے ہیں کہتے ہیں حکومت جعلی سروے کروا رہی ہے۔ کیا ہوا جو ایک بار اسحاق ڈار کو بہترین وزیر خزانہ قرار دینے والے آرٹیکل کے حوالہ سے آئی ایم ایف نے تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس جریدے میں کوئی بھی پیسے دے کر اپنی تعریف میں اشتہار لگوا سکتا ہے۔ ہر بار یہ تھوڑی ہوتا ہے۔

اگر ترقی ہو رہی ہے تو اس کے اشتہار لگوانے میں کیا ہرج ہے؟ لیکن یہ تو خالصتاً سروے ہیں جو انہوں نے عوام کی قوت خرید کے حوالہ سے کیے ہیں اور یہ کوئی ایسے ویسے سروے نہیں ان سروے کروانے کے لیے بڑے بڑے ڈالروں کے ڈھیر لگانے پڑتے ہیں۔ کوپرز پرائس وئیر ہاؤس کے مینیجر کا ایسا انٹرویو لینے کے بیرنز نام کے جریدے کو کیسے کیسے تیار کیا گیا وہ سی آئی اے کو بھی نہیں معلوم ہو سکا۔

ویسے تو سنا ہے بھارت تو بھارت، امریکہ، برطانیہ، فرانس ، جاپان، جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی پاکستان کی ترقی کی خبریں ہضم نہیں کر پا رہے اسی لیے تو ٹرمپ پاکستان اور پاکستانیوں کے مخالف ہو گیا ہے۔ایران کا تو وہ بس ایسے ہی نام لیتا اور اس پر پابندیاں لگاتا ہے درحقیقت وہ ہم سے ہی خوفزدہ ہے ۔ خود اس کے اپنے ملک کے جریدے یہ لکھ رہے ہیں پاکستان میں عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا ہے کہ لوگ بھاری رقوم دے کر امریکہ برطانیہ کے ویزے خرید رہے ہیں۔کوئی یہ سوچنے کی ہمت نہ کرے کہ لوگ اپنے وطن کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں بس وہ تو تجارت کی غرض سے دوسرے ممالک جانا چاہتے ہیں ویسے اگر کوئی دوسرے ملک جا بھی رہا ہو تو ہمارے مذہب میں بھی ہجرت کرنے کو اچھا سمجھا گیا ہے اس میں سے برائی نہ تلاش کی جائے۔

دیکھیں ناں، لوگوں کی قوت خرید کا اندازہ کریں لوگ جو پہلے ایک پلاٹ رکھتے تھے آج دس بیس پلاٹوں کے مالک ہیں، موبائل فون سب سے بہترین والے آپ کو یہیں ملیں گے ، سبزیاں اور پھل بھی اب تو برطانیہ و امریکہ کی طرح بڑے بڑے سٹورز میں دستیاب ہیں بس آپ سبزی اور پھلوں کی ریڑھیوں پر نہ جائیے گا وہاں لوگ پھل، سبزی خریدنے سے بھی قاصر دکھائی دیتے ہیں وہ چھتیس ریڑھیوں سے نرخ معلوم کر کر کے ویسے ہی تھک چکے ہوتے ہیں۔ یہ کم بخت چھابہ فروش بھی اتنا منافع کماتے ہیں غریب آدمی کو کیلے، سیب اور مالٹے تو کیا املوک بھی خریدنے کے قابل نہیں چھوڑا۔

پہلے کہا جاتا تھا دال روٹی کھا کر گزارا کر لیں گے اب تو بڑے اچھے حالات ہیں لوگ فائیو سٹار ہوٹلز میں کھانے کھاتے ہیں۔ بس آپ یہ اٹھانوے فیصد افراد کی جانب نہ دیکھیں یہ ہمیشہ سے ایسے ہی بھوکے ننگے ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔ اس ملک کے دو فیصد خواص کو دیکھئے ترقی کی منازل کیسے طے کرتے ہیں۔ جن کی کبھی ایک چھوٹی سے مل ہوا کرتی تھی آج بڑی سی ایمپائر کا مالک ہے، چار پانچ شوگر ملز، تین چار ٹیکسٹائل ملز کے علاوہ مختلف ممالک میں ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کے مالک ہیں۔وہ اس لیے کہ یہ لوگ آگے بڑھنے کا فن جانتے ہیں، یہ ترقی کے راستے کے مسافر ہیں، یہ سب سروے اور بیرنز ایشیا کے انٹرویوز دراصل ان لوگوں کے لیے ہی ہیں ، باقی بچے وہ تھوڑے سے اٹھانوے فیصد افراد تو ان کی قسمت میں ایسے ہی جینا لکھا ہے۔

غریب کیا جانے ترقی کس چڑیا کا نام ہے؟ وہ صبح گھر سے کمانے کے لیے نکلتا ہے شام ڈھلے گھر لوٹتا ہے ، اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر بچوں کو سکول کالج میں پڑھاتا ہے، کبھی تنخواہ میں تاخیر ہو جائے یا کسی اور وجہ سے سکول کی فیس میں دیر ہو جائے تو سکول والے کیسی جلی کٹی سناتے ہیں، پھر بھی وہ رات کو اللہ کا شکر ادا کر کے سوتا ہے ، اسے صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اس کے بچے بھوکے نہ سوئیں، فیس نہ ہونے کے باوجود وہ پڑھتے رہیں ، وہ ٹیکس بھی ادا کرتا ہے اور وہ ہمارے دو فیصد خواص جنہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ ٹیکس کس طرح بچایاجائے، اس کے لیے چاہے ٹیکس وکیلوں کو لاکھوں روپے فیس ہی کیوں نہ دینا پڑے۔

غریب تو سرکاری ہسپتال کے جنرل وارڈ میں ایک بستر پر تین مریض دیکھتا ہے، وہ ایک مسافر وین میں بھیڑ بکریوں کی طرح بیس پچیس مسافروں میں پھنسا ہوتا ہے، وہ سرکاری سکولوں میں اپنے بچے داخل کروانے کے لیے بھی سفارش ڈھونڈ رہا ہوتا ہے، کاش اسے اسحاق ڈار والی، مریم نواز والی، مریم اورنگزیب والی اور وزیر اعظم نواز شریف والی ترقی کہیں نظر آ سکتی ۔

عام آدمی کا تو تعلق پی ٹی آئی سے بھی نہیں پھر انہیں کیوں وہ چالاک اور پراسرار ترقی نظر نہیں آتی جو عالمی جرائد اور بڑی بڑی سروے کمپنیوں کو نظر آ رہی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں جلنے والے جلتے رہیں گے، فیتے کاٹنے والے فیتے کاٹتے رہیں گے۔۔ واہ واہ سبحان اللہ۔۔جناب فیتے ضرور کاٹئے لیکن ہماری امید کی ڈور نہ کاٹئے، دم توڑتے ہوئے اٹھانوے فیصد عوام کے آکسیجن پائپ سے پیر اٹھا لیجئے، ترقی وہ نہیں جو آپ اپنے حلقہ احباب میں دیکھتے ہیں، ترقی اور قوت خرید دیکھنی ہے تو حاکم بننے کے بجائے خلیفہ اسلام بنیں اور بھیس بدل کر لوگوں میں جائیں ، آپ کو معلوم ہو غربت کے باعث خود کشی کے رجحان میں اضافہ کیوں ہوا؟ چائلڈ لیبر کی شرح کیوں بڑھی؟ لڑکیوں کی شادی کی اوسط عمر کیوں بڑھ رہی ہے؟۔

ترقی کے اثرات صرف لاہور، اسلام آباد، کراچی میں نہ دیکھیں،ترقی کا پیمانہ دیکھنا ہے تو اپنی سیکورٹی کے حصار سے باہر نکلیں ، جنوبی پنجاب کے کسی علاقہ میں جائیں ،لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، اپنی بیٹیوں کی شادی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں، ان کے سامنے اگر آپ نے ترقی کی بات کی تو وہ حیران ہو کر پوچھیں گے وہ کیا ہوتی ہے۔بہتر ہوگا کروڑوں روپے ان سروے اور انٹرویوز پر خرچ کرنے کے بجائے واقعی صحت، تعلیم پر خرچ کیے جائیں، اگر ان اٹھانوے فیصد نے بھی صرف اپنا سوچنا شروع کر دیا تو آپ کے لیے مسئلہ ہو جائے گا، جن دو فیصد افراد کی ترقی کا آپ کو خیال ہے انہوں نے بھی آپ کا خیال نہیں کرنا۔بقول شاعر:

وہ کہہ رہا ہے کہ وہ حکمران ہے لیکن۔
کہیں بھی اس کی حکومت نظر نہیں آتی
وہ تاج و تخت ہوا میں اچھال دیتی ہے
کبھی کبھی جو بغاوت نظر نہیں آتی۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے