پیپلز پارٹی کے 4 مطالبات، قیادت کی نظراندازی کا شکار

لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے کیے گئے چار مطالبات، جماعت کی اعلیٰ قیادت کے بیرون ملک دوروں اور دہشت گردی کے درمیان کہیں گم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

27 دسمبر 2016 کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی نویں برسی کے موقع پر شروع ہونے والی پیپلز پارٹی کی پرجوش مہم، 19 جنوری کو پیپلز پارٹی کی لاہور تا فیصل آباد ریلی کے بعد اپنی توانائی کھو بیٹھی۔

19 جنوری کی ریلی کے بعد پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری امریکا روانہ ہوگئے جہاں ان کے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری پہلے سے موجود تھے اور چند روز قبل دونوں رہنماؤں کی وطن واپسی پر ملک میں شروع ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر ان کی منتظر تھی۔

یوں بلاول بھٹو اور آصف زرداری کو ملتان میں اپنے چار مطالبات کے حوالے سے 10 مارچ کے طے شدہ عوامی جلسے کو بھی منسوخ کرنا پڑا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چار مطالبات میں پاناما لیکس معاملے پر تحقیقات کے لیے حزب اختلاف کے بل کا راستہ، باقاعدہ وزیر خارجہ کی تعیناتی، قومی سلامتی کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کا قیام اور گذشتہ سال مئی میں پاک-چین اقتصادی راہداری پر بین الجماعتی اجلاس کی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد شامل ہیں۔

اس سے قبل آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو ان مطالبات پر عملدرآمد کے لیے 27 دسمبر کی ڈیڈلائن دی تھی اور مطالبات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے امریکا روانہ ہونے کے بعد نہ صرف دیگر رہنماؤں نے اس معاملے کو پسِ پشت ڈال دیا بلکہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے بھی اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی پیپلز پارٹی کے مطالبات پر نہ ہی 27 دسمبر سے پہلے اور نہ ہی بعد میں کوئی دلچسپی ظاہر کی، جس سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا اقدام سنجیدہ نوعیت کا نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پہلے ہی شک ظاہر کرتی رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کسی مظاہرے یا سڑکوں پر احتجاج کا آغاز نہیں کرے گی کیونکہ پی پی پی اور نواز حکومت نے ایک دوسرے کے مفاد کے تحفظ کے لیے ‘مک مکا’ کر رکھا ہے۔

تاہم پیپلز پارٹی خود پر سے ‘فرینڈلی اپوزیشن’ کا ٹیگ ہٹانے کی کوششوں میں ہے۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کے مطابق ‘قیادت نے ایک ایسا مقصد طے کیا جو آغاز سے ہی ناقابل حصول لگتا تھا اور بالخصوص پنجاب کے مختلف ضلعوں میں پارٹی رہنماؤں کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی حکومت مخالف مقصد کیسے پورا کرسکتی ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی اجلاسوں میں قیادت کو ان مسائل سے آگاہ کیا جاتا رہا اور ‘کسی بھی مہم کے آغاز سے قبل جماعت کی تشکیل نو اور خالی عہدوں پر تعیناتیوں کا مطالبہ کیا جاتا رہا، لیکن قیادت کی اپنی ہی منطق ہے’۔

پارٹی رہنما کے مطابق ‘جماعت کے چار مطالبات کا بنیادی مقصد پنجاب میں سیاسی سرگرمی کا آغاز کرنا، کارکنوں کو فعال بنانا اور اپنی اُس پوزیشن کو دوبارہ حاصل کرنا تھا جو اب پی ٹی آئی حاصل کرچکی ہے، تاہم ایک بار پھر ہم ابتدائی مقام پر آکھڑے ہیں، چار مطالبات کی مہم غیرسنجیدہ ہو کر سامنے آئی اور ہمارے مخالفین کو تمسخر اڑانے کا موقع مل گیا’۔

تاہم پیپلز پارٹی کے انفارمیشن سیکریٹری چوہدری منظور سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی مہم اب بھی زندہ ہے اور بہت جلد اس کا دوبارہ آغاز کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘چار مطالبات کے حوالے سے ہم نے 10 مارچ کو عوامی جلسے کا ارادہ کیا تھا تاہم اسے اس لیے منسوخ کرنا پڑا کیونکہ حکومت سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے تیار نہ تھی’۔

اس سوال کے جواب میں کہ دیگر جماعتیں جیسے پاکستان مسلم لیگ (ق) نے حالیہ دہشت گردی کی لہر کے باوجود منڈی بہاؤ الدین میں ورکرز کنوینشن کا انعقاد کیا، چوہدری منظور کا کہنا تھا کہ ‘پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جسے دہشت گردوں سے واقعتاً دھمکیوں کا سامنا ہے اور حالیہ ویڈیو میسج میں بھی دہشت گردوں نے ہمیں نقصان پہنچانے کا اشارہ دیا، تاہم دہشت گردی اس مہم کو ختم کرنے کا بہانہ نہیں ہوسکتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چار مطالبات ملکی مفاد میں ہیں، ‘اگر حکومت نیشنل ایکشن پلان کے ہمارے مطالبے پر عملدرآمد کرلیتی تو دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا تھا’۔

پی پی پی جنوبی پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات شوکت بسرا کے مطابق مارچ کی ریلی حالیہ دنوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے باعث روک دی گئی تاکہ متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جلد ہی اپنی مہم کا دوبارہ آغاز کرے گی اور حکومت پر ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔

شوکت بسرا کے مطابق ‘اگلے مرحلے میں پنجاب میں ریلیوں کے سلسلے کا آغاز کیا جائے گا’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے