پی ایس ایل میں کشمیری پرچم پراعتراض

پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے کشمیری ہمارے بھائی ہیں ہم ان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں ہم کشمیریوں کو کسی محاذپے اکیلا نہیں چھوڑیں گے لیکن اب کشمیریوں کی نوجوان نسل کو یقین ہو چکا ہے کہ یہ صرف کہنے کی حد تک ہیں عملا حکومت پاکستان اور عوام ان باتوں سے کوسوں دور ہیں اور صرف کشمیری قوم کو لالی پاپ دیا جارہا ہے ،اورحکمرانوں کو کشمیری عوام سے کوئی دلچسی نہیں ہے بلکہ انہیں کشمیر کے وسائل سے لگاو ہے بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا ہے کشمیریوں کی تضحیک کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا ،کشمیریوں کے ساتھ ذلت آمیزسلوک کے کئی واقعات پرنٹ اور شوشل میڈیا میں اجاگر ہوچکے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ دبئی میں پیش آیا جہاں پی ۔ایس۔ایل ، کا ٹورنامنٹ پوری آب وتاب سے جاری وساری ہے ،ہماری دعا ہے کہ یہ اسی طرح کامیابی سے اپنی منازل طے کرے ،پی ،ایس ،ایل میں جس طرح پاکستانی قوم کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے جاتی ہے اور اپنی اپنی ٹیم کو سپورٹ کرتی ہے اسی طرح کشمیری تاریک وطن بھی گراونڈ کو بھرنے اور پی ایس ایل کو چار چاندلگانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور اپنی پسندیدہ ٹیم کو سپورٹ بھی کررہے ہیں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہاں پر ، پرسوں ایک کشمیری نوجوان بھی گیا جس کا تعلق روالاکوٹ کے علاقے منگ سے تھا۔

جب وہ اپنے جسم پر کشمیری پرچم کی قمیض پہن کر اسٹڈیم میں داخل ہوا تو میچ کے اختتام پراسے ایک گھنٹے تک انتظامیہ نے روکے رکھا اور اُسے وارننگ دی گئی کہ اگر آئندہ ایسی حرکت کی تو اسٹیڈیم میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا ۔انتظامیہ نے ایسا کیوں کیا؟؟کشمیر کا پرچم جسم پر دیکھ کر ناگوار کیوں گزرا؟؟یہ سب کر کے تاریک وطن اور کشمیری قوم کو کیا میسج دیا گیا؟ ایسا تو انڈیا میں ہوتا رہا ہے اگر پاکستان نے بھی وہی کچھ کرنا ہے تو پھر انڈیا اور پاکستان میں کیا فرق رہ گیا ؟؟ پلیز گیم کو گیم رہنے دیا جائے ہر بندہ اس چیز میں آزاد ہے کہ وہ کس ملک کی ٹیم کو سپورٹ کرتا ہے یاکس ملک کا پرچم لہراتا ہے اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیئے ۔

سپورٹس مین کو علاقائی تعصبات اور سیاست سے پاک ہونا چاہئے بہر حال اس کے علاوہ بھی ایسے کئی واقعات منظر عام پر آچکے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے ،پہلے تو کشمیری عوام صرف حکمرانوں سے نالاں تھی لیکن وقت کے ساتھ سا تھ اور ناروا سلوک کی وجہ سے کشمیریوں کے دلوں میں اب پاکستانی عوام اور اداروں کے لئے بھی نفرت بڑھتی جارہی ہے ۔ہتک آمیزسلوک کی کافی ساری مثالیں پیش کرسکتا ہوں ،اسی طرح اگر کشمیر کی کوئی نمبر پلیٹ والی گاڑی اسلام آباد میں داخل ہو جائے تو اسلام آباد پولیس والے تمام کام چھوڑ کر اس گاڑی کی طرف للچائی ہوئی نظریں لے کر ایسے بھاگتے ہیں جیسے گدھ اپنے شکار کو دیکھ کر جھپٹتے ہیں تاکہ کوئی مال پانی وصول کیا جاسکے اس صورت حال سے بچنے کے لئے کشمیری ہزاروں روپے اضافی دے کر اسلام آباد کی نمبر پلیٹ لگوانے پر مجبور ہیں ۔تاکہ روز روز کی پریشانی سے بچا جا سکے ۔اسکے علاوہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر بھی ایسے ہی ذلت آمیز سلوک سے اکثر تارکین وطن کو گزرنا پڑتا ہے ۔

گزشتہ روز ایک ڈرائیور میرے آفس آیا اور اس کے بھی ایسے ہی تاثرات تھے کہ روات والی سائیڈ پے کھڑے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں اور کالجز کے سٹوڈنس کا رویہ انتہائی گستاخانہ اورذلت آمیزہوتا ہے وہ ہمیں انسان نہیں سمجھتے ہیں اُس ڈرائیور کے الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کیاہم مسلمان نہیں ہیں ؟؟کیا ہم انسان نہیں ہیں ؟وہ ہمیں کیوں کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں ؟؟ایک ڈرائیور کے یہ الفاظ سن کر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ احساس محرومی کے اثرات اب نیچے والا طبقہ بھی محسوس کرنے لگا ہے یہ وہی احساس محرومی ہے جو مشرقی پاکستان والوں کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کا سبب بنی لیکن پاکستان کے حکمرانوں اور عوام نے اُس علیحدگی سے کو ئی سبق نہ سیکھا اسی احساس محرومی اور حقوق پورے نہ دینے پر بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے سر اٹھایا ۔

اب وہی رویہ وہی سلوک اور وہی کام کشمیریوں کے ساتھ کیا جارہا ہے،بنگالیوں اور بلوچیوں کو بھی اپنے سے کم تر اور کیڑے مکوڑے سمجھا جاتا تھا،جسکی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا آج وہی کیڑے مکوڑے اور کم تر ہم سے زیادہ خوشحال اور زیادہ تعلیم یافتہ ہیں ،ان چیزوں کا ذمہ دار کون ہے؟عوام ؟یا حکمران ؟؟حکمران اور عوام کیوں غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہے؟کیوں بار بار وہی غلطیاں دہرائی جا رہیں ہیں؟ جن سے پہلے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے ۔

اب کشمیریوں میں احساس محرومی کا لاوا بھڑکتا جارہا ہے ،نوجوان نسل اب یہ سوچنے پے مجبور ہے کہ کیا ہمارے بڑوں کا الحاق کا فیصلہ درست تھا؟کیا ہمیں ہمارے حقوق پورے دیے جارہے ہیں ؟کیا ہمیں انسان سمجھا جاتا ہے ؟لہذا پاکستانی حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے کشمیریوں کی احساس محرومیوں کو دور کرنا چاہیے اگر اسی طرح کشمیریوں میں احساس محرومی بڑھتا رہا اور کشمیریوںکی احساس محرومیوں کا ازالہ جلد ازجلد نہ کیا گیا تو یہی لاوا آتش فشان بن کر پھٹے گا جسے کوئی روک نہیں سکے گا پھر تاریخ تو ہوگئی لیکن تاریخ میں تمہارا نام تک نہ ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے