سیکیورٹی کارروائیاں یا فیچر فلم

دہشت گردی کی آڑ میں سکیورٹی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک پوری فیچر فلم کی سٹوری ہے۔

قیدی کو ٹھوکنا، فورتھ شیڈول میں شامل لوگوں کی گرفتاریاں، فضائی بمباریوں میں درجنوں دہشت گردوں کو مارنے کی باتوں کا تسلسل تو ایک عرصے سے جاری ہے۔
دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی، آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، جیسے بیانات بھی قوم کو منہ زبانی یاد ہو چکے ہیں۔

تازہ واردات سرچ آپریشن ہیں۔ جن میں ہر روز سینکڑوں افراد کو گرفتار کرنے کی خبریں فخریہ انداز میں جاری کی جاتی ہیں۔ ان سرچ آپریشن کی حقیقت سے آگاہی کے لئے ایک بالکل تازہ واقعہ پیش خدمت ہے۔

میرے چینل کے ایک کیمرہ مین کا تعلق نیلم ویلی آزاد کشمیر سے ہے۔ گزشتہ روز اُس کے گاوں سے کچھ لوگ اپنے ایک بیمار عزیز کو لے کر راولپنڈی آئے۔ مریض کی حالت خاصی خراب تھی اس لئے اُسے بے نظیر بھٹو ہاسپیٹل میں فوری طور پر ایڈمنٹ کر لیا گیا۔ جس کے بعد اُس کے ساتھ آنے والے 3 افراد کھانے کی غرض سے نزدیکی ہوٹل آئے۔ جہاں وہ کھانا کھانے میں مصروف تھے کہ پولیس کا چھاپہ پڑ گیا۔

پولیس نے ہوٹل میں موجود تمام افراد کو گرفتار کر کے تھانہ نیو ٹاون منتقل کر دیا۔ دیگر افراد کے ہمرا یہ تین لوگ بھی پولیس والوں کی منتیں کرتے رہے کہ ہمارا مریض ہسپتال میں داخل ہے۔ ہم نے اُس کے لئے ادویات خریدنا ہیں۔ ہم ابھی 9 گھنٹوں کا سفر کرکے پنڈی پہنچے ہیں۔ ہمارے پاس شناختی کارڈ موجود ہیں۔ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز والا معاملہ تھا۔

ایک پولیس والے نے انہیں بتایا کہ کسی جاننے والے کو تھانے بلاو تو جان بخشی ہو سکتی ہے۔ ورنہ رات حولات میں گزرے گی اور صبح جیل جاو گے۔ ان بچاروں نے مذکورہ کیمرہ مین کا نمبر پولیس والے کو دیا کہ وہی ان کا جاننے والا تھا۔ اپنے گاوں کے لوگوں کے نام سُن کر کیمرہ مین بھی فورا تھانے جا پہنچا۔ اُسے بتایا گیا کہ فی کس 2 ہزار روپے کے عوض رہائی ہو سکتی ہے، ورنہ اُوپر سے بہت سخت آڈر ہیں۔

کیمرہ مین نے بطور صحافی اپنا تعارف کروایا تو اُسے کہا گیا کہ مفت رہائی کے لئے ایس ایچ او سے ملو۔ بچارے نے ایس ایچ او صاحب کے دربار میں حاضری دی تو غلطی سے کہہ دیا کہ، "یہ قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے”۔ یہ سُننا تھا کہ صاحب بہادر کے مزاج برہم ہو گئے۔ اُنہوں نے محرر کو بلوا کر کہا کہ کسی کو نہیں چھوڑنا سب کے خلاف پرچہ دے دو۔ اب غلط اور درست کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ جس پر اگلے چند منٹوں میں عمل بھی ہوگیا۔

یوں سیریس مریض نے تنہا رات واڈ اور اُس کے تیمارداروں نے حوالات میں کاٹی۔ آج صبح تمام اسیران کو مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا۔ جہاں صحافی برادری سے تعلق کی وجہ سے ہمارے کیمرہ مین کے گرائیوں کی تو ضمانت پر رہائی ہو گئی، لیکن باقی بہت ساروں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بیج دیا گیا۔

یہاں کہانیاں بہت دلخراش تھیں۔ کوئی بتا رہا تھا کہ وہ گھر سے دہی لینے نکلا تھا۔ اور کوئی داوئی لینے، کوئی مزدوری کر کے گھر جا رہا تھا۔ کسی کے بچے گھر میں تنہا تھے اور کسی کے بوڑھے والدین۔ اکثر افراد کا تعلق روزانہ کی بنیاد پر اجرت پانے والے مزدور طبقے سے تھا۔ اب یہ بچارے وکیل کا خرچہ اور ضمانتی ڈھونڈنے کے بعد ہی جیل سے نکل سکیں گے۔
قانون کے مطابق ہمارے کیمرہ مین کے گرائیوں کو بھی مریض کی تیمار داری کے ساتھ کم از کم ایک بار پھر تاریخ پر عدالت میں پیش ہونا پڑے گا تاکہ وہ اس مقدمے سےبری ہو سکیں۔ جبکہ باقی بچاروں کو نہ جانے کب تک تاریخیں بھگتنا ہونگی۔

اس طرح کے سرچ آپریشنز سے پولیس، وکلا اور عدالتی عملے کی جیبیں تو خوب گرم ہو جاتی ہیں، لیکن دہشت گردی پر کیا فرق پڑ سکتا ہے، یہ سوال اٹھانے والا ملک دشمن تصور کیا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے