الکوحل، بھنگ، کوکین، ممسک و مسکن ادویات، چرس، میتھاکولون وغیرہ کا مسلسل اور عادی استعمال جو استعمال کنندہ یا دوسرے لوگوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے کو منشیات کے استعمال کے دائرہ کار میں شامل کیا جاتا ہے. اِن منشیات کی کاشت، تیاری، تقسیم اور فروخت منشیات کے کاروبار کے زمرے میں آتی ہے جو موجودہ عہد میں عالمی بلیک مارکیٹ کے بڑے کاروباروں میں شامل ہے.
غیر قانونی منشیات کی کھپت عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر ہے. اکیسویں صدی کے اوائل میں ہی منشیات کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے خصوصاً کوکین، چرس اور بھنگ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے.
عالمی ڈرگ رپورٹ 2010ء کے مطابق دنیا کی پانچ فیصد آبادی منشیات کا استعمال کرتی ہے جن میں سے 2 کروڑ ستر لاکھ لوگ منشیات کی انتہائی خطرناک مقدار استعمال کرتے ہیں. صرف 2013ء میں شراب نوشی کے سبب 139000 اور دوسری منشیات کے استعمال کی وجہ سے 127000 افراد مر گئے تھے.
دنیا میں کئی منشیات کے کاروبار کو قانونی حیثیت بھی شامل ہے مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ قانونی منشیات مضرِ صحت نہیں ہیں. شراب سمیت دوسری منشیات کا استعمال صحت کے مسائل، سماجی مسائل، زخم، غیر محفوظ جنسی عمل، تشدد، اموات، شاہراہوں پہ حادثات، قتل، خودکشی، جسمانی انحصاری یا نفسیاتی بیماریوں کا سبب کی بن سکتا ہے.
شراب اور دیگر منشیات کے عادی افراد میں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے. شراب و دیگر منشیات کے مسلسل استعمال سے ذہنی ساخت میں آنے والی تبدیلی اور سماجی تنہائی خودکشی کے رجحان میں اضافہ کرتی ہے. خصوصاً 10 سے 19 سال کے عمر والے شرابیوں اور نشئیوں میں خودکشی کا رجحان انتہائی نوعیت کا حامل ہے. ایک رپورٹ کے مطابق اِس عمر کے لوگوں کی ہر چوتھی خودکشی شراب نوشی و منشیات کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ امریکہ میں ہونے والی تیس فیصد خودکشیاں مسلسل شراب نوش لوگ ہی کرتے ہیں.
علاوہ ازیں شراب نوشی سماج میں بچوں سے زیادتی، گھریلو تشدد، عصمت دری، چوری اور لڑائی جھگڑے سمیت فوجداری جرائم کا ارتکاب کرنے کے خطرات میں اضافہ کر سکتی ہے. منشیات کا استعمال ذہنی کمزوری، خبطی پن، سائیکوسس یا ڈپریشن، گھبراہٹ، پراگندہ ذہنیت سمیت دیگر کئی ذہنی امراض کا سبب بنتا ہے.
منشیات کا استعمال مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے مزاج، ذہنی بیداری، ذہانت، یادداشت اور محسوسات کے معیار میں کمی ہو جاتی ہے. اضطرابی کیفیت منشیات
کے استعمال کا براہ راست نتیجہ ہے بلکہ ایک سے زیادہ قسم کی منشیات کے استعمال کرنے والے سب سے زیادہ مضطرب ہوتے ہیں.
تارکینِ وطن خصوصاً پناہ گزین ثقافتی کشیدگی، لسانی رکاوٹوں، نسل پرستی، تعصب، معاشی تنگی، کیمپوں میں بھیڑ، سماجی تنہائی، حیثیت میں ابتری اور ملک بدری کے خدشات کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں. اِسی وجہ سے وہ لوگ منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں.
اکثر بےگھر خاص طور پر نابالغ بےگھر افراد منشیات کے استعمال میں ملوث پائے جاتے ہیں. اعلی معیار کی کارکردگی کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ موسیقار بھی منشیات خصوصاً کوکین کا استعمال کرتے ہیں.
لوگوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ لوگ منشیات کے عادی کیوں ہو جاتے ہیں؟ جبکہ لوگوں کی اکثریت یہ بھی سمجھتی ہے کہ منشیات کے عادی افراد فقط اپنی قوتِ ارادی کے بَل بوتے پر اِس نقصان دہ عادت کو ترک کر سکتے ہیں، کیونکہ اکثر لوگ اِس عادت کی پیچیدگی سے واقف نہیں ہیں. اِس عادت کو ترک کرنا محض قوتِ ارادی کا معاملہ قطعاً نہیں ہے.
سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ منشیات کی عادت ذہنی تبدیلیوں کا سبب بنتی ہے اور بےپناہ نقصانات کے ادراک کے باوجود منشیات کے عادی اِس عادت کو ترک نہیں کر سکنے کی دماغی مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں. منشیات کے عادی لوگ خود پہ قابو نہیں رکھ پاتے ہیں اور مناسب فیصلے لینے کی قوت کھو چکے ہوتے ہیں.
منشیات کے عادی افراد کے دماغ کا تصویری مشاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ فیصلہ سازی، سیکھنے سمجھنے، یادداشت اور رویے کنٹرول کرنے سے منسلک دماغی خلیے زیادہ متاثر ہوتے ہیں. اِسی اثر کے تحت منشیات کا عادی منشیات کے استعمال کو لازم سمجھ لیتا ہے.
کسی ایک عنصر کے بنا پہ یہ پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی کہ کوئی شخص نشہ کا عادی بن جائے گا یا نہیں بلکہ اِس کا انحصار استعمال کنندہ کی حیاتیات، سماجی ماحول، عمر اور جسمانی نمو کے مرحلے پہ ہوتا ہے.
کسی بھی شخص کی منشیات کی عادت کے تعین میں اکثریتی کردار اُس کی جینیاتی ترتیب اور اُس کے ماحول کا مجموعہ ادا کرتا ہے علاوہ ازیں جنس، نسل اور دیگر ذہنی عوارض منشیات کی عادت کے خطرے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں.
عام طور پر سماجی و اقتصادی حیثیت، معیار زندگی، جنسی و جسمانی استحصال، خاندان اور دوستوں سے تعلقات کی نوعیت جیسے عناصر بھی اِس عادت پہ اثرانداز ہوتے ہیں.
مگر منشیات کی لت ایک قابل علاج بیماری ہو سکتی ہے. تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ روک تھام کے پروگرام میں خاندان، اسکولوں، کمیونٹیز اور میڈیا کی شمولیت منشیات کے استعمال کو کم کرنے میں مؤثر ہیں.
منشیات کے موضوع پر لکھی گئی تحریر اِس کے کاروباری رخ کو بیان کیے بغیر ادھوری ہے. ریپبلکن پارٹی کے راہنما اور فلوریڈا کے سابق آٹارنی جنرل بل میکولم کے مطابق بڑے بڑے سیاسی نام منشیات کے کاروبار سے منسلک ہو سکتے ہیں.
وہ ممالک جہاں منشیات کی پیداوار اور فروخت ہوتی ہے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں. مثال کے طور پر کولمبیا سے منشیات جنوبی امریکہ کے کئی علاقوں میں ایکواڈور کے راستے سمگل ہوتی ہے، یہی سمگلنگ اِن علاقوں میں معاشی اور سماجی مسائل پیدا کر رہی ہے.
اِسی طرح امریکہ میں سمگل ہونے والی 79 فیصد کوکین ہونڈوراس کے راستے سے جاتی ہے اور ہونڈوراس دنیا بھر میں انسانی قتل کی سب سے زیادہ شرح والا ملک بھی ہے. انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق وسطی امریکہ میں سب سے زیادہ پرتشدد علاقہ گوئٹے مالا اور ہونڈوراس کا سرحدی علاقہ ہے جہاں منشیات کی اسمگلنگ کی سرگرمیوں کی ایک کثرت دیکھی جا سکتی ہے.
منشیات کی تجارت سے منافع کے بارے میں اعداد و شمار اس کے غیر قانونی نوعیت کی وجہ سے بڑی حد تک نامعلوم ہیں. منشیات اور جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر نے منشیات کے کاروبار کی قدر کا اندازہ چار ٹرلین امریکی ڈالر لگایا تھا جو اِس کو تیل اور اسلحے کے کاروبار کے مساوی دنیا کے بڑے کاروباروں میں شامل کرتے ہیں.
2008ء کے معاشی بحران کے دوران بینک تباہی کے دہانے پر تھے، حکومتوں نے بینکوں کو بیل آؤٹ پیکج دے کر بینکوں کو بند ہونے سے بچایا تھا. لیکن اندر کی کہانی یہ ہے کہ منشیات کی غیر قانونی تجارت کے پیسوں سے بینکنگ انڈسٹری کو بچا لیا گیا کیونکہ یہ واحد غیرقانونی کاروبار ایسا ہے جو بہت منظم ہوتا ہے اور 2008ء میں بینکوں کو اِس کاروبار میں ملوث بےتحاشا "لیکوئیڈ کیپیٹل” میسر آگیا. اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل انتونیو ماریا کوسٹا کے مطابق منشیات کے غیرقانونی کاروبار میں ملوث 351 ارب امریکی ڈالر معاشی نظام میں شامل کرکے بینکوں کو بچا لیا گیا تھا.
2008ء کے معاشی بحران کے وقت بینکوں کیلیے سب سے بڑا مسئلہ نقد رقم کی کمیابی تھی. اُس وقت بینکوں میں قرض کا لین دین منشیات کے غیرقانونی کاروبار سے منسلک پیسے سے کیا گیا. یہاں یہ بات آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے کہ موجودہ عہد کے سرمایہ داروں کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پیسے کہاں سے آ رہے ہیں، اُن کو بس اپنے منافع سے غرض ہے. یہ سرمایہ دارانہ نظام کے کالے کارناموں کی فقط ایک مثال ہے.
اکثر بینکوں کے مالک اپنی اپنی حکومتوں کا حصہ بھی ہیں. جب یہ لوگ غیرقانونی کاروبار سے وابستہ افراد کے پاس نقد رقوم لینے گئے ہونگے تو انہوں نے اُن کی غیرقانونی شرائط بھی تسلیم کی ہونگی، اِس طرح اکیسویں صدی کے اوائل میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی وجہ کھل کے سامنے آ جاتی ہے. منشیات کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے "مسلسل کوشش” کے باوجود امریکہ اب بھی غیر قانونی منشیات کی دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے.
یہ بھی ایک وجہ ہے کہ 2003ء میں اوزئیل کارڈینس کی گرفتاری کے بعد سے منشیات کے کاروبار سے منسلک کسی بڑے منشیات فروش کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے. حالانکہ صرف میکسیکو میں ساڑھے چار لاکھ لوگ منشیات کے کاروبار سے براہ راست منسلک ہیں جبکہ بتیس لاکھ میکسیکن لوگوں کی روزی روٹی منشیات مافیا پر منحصر ہے.
علاوہ ازیں امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) پر بھی منشیات کی اسمگلنگ کے الزام موجود ہیں. سی آئی اے پہ اِس الزام کے حوالے سے مشہور مورخ الفریڈ میکوائے، انگریزی کے پروفیسر و شاعر پیٹر ڈیل سکاٹ، صحافی گیری ویب، مائیکل رَپرٹ، الیگزینڈر کاک برن اور مشہور میکسیکن صحافی انابیل ہرنانڈس کی تحریریں و کتب قابلِ ذکر ہیں.
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا بھائی احمد کرزئی سی آئی اے کی پےرول پہ تھا اور اُس پہ بھی منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات موجود ہیں لیکن ابھی تک یہ صرف الزامات ہی ہیں کیونکہ سی آئی اے کے خلاف ثبوت کی فراہمی ایک عمومی بات نہیں ہے.
اِسی طرح لاؤس میں 1961ء سے 1975ء تک امریکی "سیکرٹ وار” کے دوران بھی "گولڈن ٹرائنگل” کے نام سے منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں. سی آئی اے کی فرنٹ کمپنی ائر امریکہ کے جہاز افیون اور ہیروئین کی اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے اور اِس حوالے سے سی آئی اے کے اندر تحقیقات بھی چلائی گئی تھیں.
یقیناً یہ کالا اور انسان دشمن کاروبار بظاہر غیرقانونی ہے مگر اِس کا پروٹوکول دنیا کے دوسرے قانونی کاروباروں سے زیادہ ہے. بڑے بڑے سرمایہ دار اور سیاستدان اِس دھندے میں ملوث ہیں. اتنے بڑے عالمی کاروبار میں ملوث لوگ اور پورا کاروباری ڈھانچہ ایسا بھی خفیہ نہیں کہ پکڑ میں نہ آ سکے، لیکن کوئی اپنے خلاف آپریشن کیوں کرے گا؟