رجب طیب،روشن ترکی کا معمار

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن مسلم دنیا کے ایک ایسے راہنما ہیں، جو قدم قدم پر اپنے کردار و عمل سے دنیا کو حیران کرنے کی بھرپور صلاحیت اور اس صلاحیت کا اظہار کرنے کا مکمل شعور اور پورا پورا حوصلہ رکھتے ہیں۔ آپ ان کے ایک کارنامے پر ابھی حیرت و استعجاب کی تصویر بنے سوچ ہی رہے ہوں گے کہ ان کا اگلا قدم آپ کو اس ورطۂ حیرت سے نکال کر تعجب کے نئے گرداب میں الجھا کر رکھ دے گا۔ یوں تو صرف رجب طیب ایردوآن ہی نہیں، پوری ترک قوم اپنی الو العزمی، جوانمردی، جفا کشی اور اعلیٰ ذہنی استعداد کے بل بوتے پر تاریخ کے ہر دور میں صفحہ دہر پر حیران کن کارناموں کا نقش ثبت کر چکی ہے اور اب بھی ترک ماؤں کی کوکھ صاحبانِ کمال کو سینت سنبھال کر رکھے ہوئے ہے، مگر رجب طیب ایردوآن کی آمد تک یہ حوصلہ مند قوم طویل عرصے سے جمود و خمود کی کیفیت سے دو چار ہوکر تعطل اور ضعفِ فکر و عمل کا شکار چلی آرہی تھی۔

عروج و زوال سنتِ تکوین ہے، دنیا کی ہر قابلِ ذکر قوم کی اجتماعی زندگی ترقی و تنزل کے ان دوانتہائی نقطوں کی درمیانی مسافت ماپتی رہی ہے۔ جو قوم جس قدر بڑے حجم کی اہمیت کی نمائندہ ہوتی ہے، اپنی حیاتِ اجتماعی میں وہ اسی قدر زیادہ مصائب، آلام اور آزمائشوں کی گھاٹی میں اترتی چڑھتی رہتی ہے۔ تاریخ کے اس عمل سے ترک قوم بھی دو چار ہوئی اور اپنی اولو العزمی کے تناسب سے اس نے دو چار بار نہیں، بار بار اقبال و اِدبار کا منہ دیکھا۔ عروج و زوال کے پاسَنگ پر بار بار پنڈولم بننا آسان نہیں۔ تاریخ میں کئی قومیں طوفان بن کر آئیں اور آتے ہی چھا گئیں، مگر کچھ ہی عرصے میں زوال کی دیمک نے ان کی عظمت و سطوت کے پایوں پر رینگنا شروع کیا تو ان کے قوائے بدن میں فوراً اضمحلال کے اثرات نفوذ کرگئے اور جلد ہی وہ تنزل کے ڈھلان پر ایسے لڑھک گئے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔

گرنا ہر شہسوار کا مقدر ہے۔ یہ عیب کی بات نہیں۔ گر کر ڈھیر ہوجانا اور دوبارہ اٹھنے کی سکت نہ پانا البتہ عیب ہے، کمزوری اور ناکامی ہے۔ باکمال شہسوار بار بار بھی گرے تو حوصلہ نہیں ہارتا۔ وہ پھر اٹھتا ہے اور جب بھی اٹھتا ہے نئی شان سے اٹھتا ہے۔ ترک قوم کی تاریخ اٹھنے، گرنے اور گرکر اٹھنے اور اٹھتے چلے جانے سے عبارت رہی ہے۔ اس قوم نے اپنی زندگی میں جس قدر اقبال و ادبار کے جلوے اور آلام دیکھے اور سہے، شاید ہی کسی قوم نے دیکھے اور سہے ہوں۔ یہ اس قوم کی حوصلہ مندی، عظمت اور سخت جانی کا بین ثبوت ہے کہ اوجِ کمال سے زوال کی کھائی میں گرنے کے بعد یہ فنا کے گھاٹ نہیں اتری۔ یہ نئے جذبۂ تعمیر سے انگڑائی لے کر دوبارہ بیدار ہوئی اور اگلا پچھلا حساب بے باق کردیا

شکر للہ کہ نہ مُردِیم، رسیدِیم بہ دوست
آفرین باد برین ہمتِ مردانۂ ما
(صد شکر کہ ہم گرکر مرے نہیں، دوبارہ اٹھے اور اپنی منزلِ مقصود کو پاگئے۔ ہماری اس ہمت اور جوانمردی کو سلام ہو۔)

ترک ایک خانہ بدوش قوم تھی، چھٹی صدی عیسوی سے قبل دنیا میں ان کی حیثیت عرفی اس سے زیادہ نہ تھی۔ یہ اپنے مویشیوں اور ضروری قابل نقل و حمل سامان کے ساتھ سارا سال موسم کے لحاظ سے منگولیا کی سرحدوں سے لے کر ایشیائے کوچک (ترکی کا وہ حصہ جو بر اعظم ایشیا میں واقع ہے، اس ”اناطولیہ” بھی کہتے ہیں، جبکہ یورپی حصے کو ”رومیلیا” کہتے ہیں) کی ترائیوں، چراگاہوں اور میدانی علاقوں تک سفر کرتے رہتے تھے۔ یہی ان کا طرز بود و باش تھا۔ اس جہاں گردی و جہاں گشتی کے دوران ان کا مختلف قوموں اور ان کے طور اطوار سے واسطہ پڑتا۔ طاقتور قوموں سے مڈ بھیڑ بھی ہوتی رہتی۔ کبھی غالب تو کبھی مغلوب ہونا مقدر ٹھہرتا۔ حالات کے اس الٹ پھیر اور گرم و سرد کی تلخی و ترشی نے جہاں انہیں سخت کوش بنادیا، وہیں انہوں نے ان تجربات سے دنیا میں سر اٹھاکر جینے کا ہنر اور جہانبانی کا سلیقہ سیکھا۔ یہیں سے ان کی زندگی میں نیا موڑ آگیا۔ دنیا نے دیکھا کہ کچھ ہی عرصے میں اس قوم نے منگولیا اور چین کی سرحد سے لے کر بحیرہ اسود و باسفورس کے ساحلوں اور اناطولیہ کے طول و عرض پر اپنی سیاسی حاکمیت کا پرچم لہرا دیا۔ اسلام لانے کے بعد اس قوم کی خوبیاں، صلاحیتیں اور جوہر مزید نکھر کر سامنے آئے، چنانچہ برمکیوں، سلجوقوں، مغلوں اور عثمانیوں کی شاندار تاریخ آج بھی اہل اسلام کے سینے میں ٹھنڈک ڈالتی اور فخر کا خوشگوار احساس بیدار کرتی ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو یہ پوری مسلم امہ کے لیے قیامت کی گھڑی تھی، اس غم میں امت کے ہر فرد کی آنکھ نے خونِ ناب برسایا اور اب بھی اہل دل اس درد کی ٹیسیں محسوس کرتے اور تڑپ کر رہ جاتے ہیں، ترک قوم کے لیے مگر یہ سانحہ نیا نہیں تھا، دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ سے چھن گئی تھی، مگر کیا ایسا پہلی بار ہوا تھا؟ یہ قوم پہلی بار اس صورتحال سے دو چار ہوتی تو یقینا اس سانحے کے مرگ بار اثرات سے کبھی جانبر نہ ہوسکتی۔ یہ اس قوم کے لیے معمول کی ایک مشق تھی، اس لیے اس نے اس تکوینی فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا اور اگلے ہی لمحے اس المناک وقوعے کو موقعے میں بدلتے ہوئے اپنی ”عظمت رفتہ” کے ملبے پر ”جمہوریہ ترکی” کی نیو اٹھائی۔

یہ 1923ء کی بات ہے جب مصطفی کمال پاشا کی رہبری میں خلافت عثمانیہ کی جگہ جمہوریہ ترکی کا وجود دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔ اتا ترک مصطفی کمال پاشا نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکی کی موجودہ جغرافیائی حدود کو عالمی قوتوں کے دست برد سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اسی کردار کی بدولت ترک قوم میں عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے، تاہم ان کی رہنمائی میں جب ”جمہوریہ ترکی” نے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا تو ترک قوم نئی آزمائشوں سے دوچار ہوگئی۔ یکایک ترکوں کا رشتہ بڑی بے رحمی کے ساتھ ان کے ماضی سے کاٹ دیا گیا۔ جس طرز زندگی پر وہ گزشتہ تقریباً آٹھ صدیوں سے کاربند تھے، بہ یک جنبش قلم اسے ممنوع قرار دیا گیا اور اسلام سے ان کا رخ پھیر کر یورپ کی طرف کردیا گیا۔ کہتے ہیں جمہوریت اور سیکولر ازم امن، اعتدال اور احترام آدمیت کے ضامن ہیں۔ ہوتے ہوں گے، مگر ترکی میں جس جمہوریت اور سیکولر ازم کی داغ بیل ڈالی گئی، اس نے بے لچک انتہا پسندی، تشدد اور نا انصافی کو ہی فروغ دیا۔ مصطفی کمال پاشا اور ان کے ساتھیوں بالخصوص عصمت انونو کا خیال تھا کہ ترکی کو یورپ کا ”مردِ بیمار” بنانے کا ذمے دار مذہب ہے، اس لیے مذہب اور اس سے وابستہ ہر چیز کو دیس نکالا دیا گیا۔ اگر اتاترک کے متبادل اقدامات، ”اصلاحات” اور نظریات ترک قوم کی زندگی میں روشنی بکھیرتے، اس کا معیار زندگی بلند کرتے اور اسے تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر ڈالتے تو ان کے اس دعوے کو درست مانا جا سکتا تھا، مگر ان کی تحریک، اصلاحات اور دیے گئے نظام نے بجائے ترک قوم کا وقار بلند کرنے کے اسے مزید اندھیروں میں دھکیل دیا۔ 2002ء میں ترک قوم کی زندگی میں رجب طیب ایردوآن جیسا رہنما آیا، تو ترکی کی حالت یہ تھی کہ وہ کشکول بدست آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ناک رگڑ رہا تھا۔ معیشت آخری سانسیں لے رہی تھی۔ سیاسی عدم استحکام نے ریاست کی بنیادیں کمزور کر دی تھیں۔ ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں، آمریت اور برائے نام جمہوریت کا چوہے بلی کا کھیل، کرپشن اور سماج کی ٹوٹ پھوٹ ترکی کا مقدر بن چکی تھی۔

رجب طیب ایردوآن اس سے پہلے بلدیاتی انتخابات میں استنبول کی میئرشپ جیت کر اپنی شاندار کارکردگی اور بے لوث و بلا امتیاز خدمتِ خلق کی بدولت قوم کی توجہ حاصل کرچکے تھے۔ انہوں نے دو براعظموں میں بٹے ہوئے اس عظیم تاریخی شہر، جو سیکولر فاشسٹ حکمرانوں کی بد ترین نا اہلی، کام چوری، غفلت شعاری اور نان ایشوز میں الجھنے کی روش کے باعث ماحولیاتی آلودگی، پانی کی قلت اور ٹریفک کے مسائل سے نیم جان ہوچکا تھا، کی اس خوبصورتی سے مشاطگی کی کہ یہ ایک نئی شان سے دوبارہ جی اٹھا اور ایک بار پھر باسفورس اور مرمرہ کی بانکی لہریں اچھل اچھل کر اس کے قدموں میں قربان ہونے لگیں۔ طیب ایردوآن کے دل میں جس فکر و نظر نے قوم کی خدمت کا جذبہ جگایا تھا اور جس نظریے نے ان کے عزائم کو پرِ پرواز بخشا تھا، اس نظریے سے وابستگی پچھلی پون صدی سے سخت ترین جرم سمجھی جاتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اس ”جرم” کی پاداش میں جلال بایار (جدید ترکی کے بانی رہنما، اتاترک مصطفی کمال پاشا کے ساتھی اور سابق صدر) کو بھی قید و بند سے گزرنا پڑا تھا ، منتخب وزیر اعظم عدنان میندریس کو پھانسی دی گئی تھی اور خود جناب ایردوآن کے مربی جناب نجم الدین اربکان کو طرح طرح کی آزمائشیں سہنا پڑی تھیں، اپنے ”جرم” کی سنگینی اور اس کے انجام کا ایردوآن کو اچھی طرح احساس تھا، مگر ایردوآن جیسے اوالعزم لوگ نامساعد حالات اور نا موافق ہواؤں کی پروا کب کرتے ہیں؟ ایسے لوگ نہ صرف دریا کے بہاؤ کی مخالف سمت تیرتے ہیں، بلکہ اپنے ساتھ دھارا بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں، چنانچہ ایردوآن نے اپنی نظریاتی شناخت چھپانے کا تردد نہیں کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں، ایک جلسے میں تقریر کے دوران اسلامی جذبات کے اظہار پر مشتمل چند اشعار پڑھنے کی پاداش میں انہیں ”نا اہل” قرار دے دیا گیا، مگر اب وہ ایک ایسی تحریک میں ڈھل چکے تھے، جس کی راہ روکنا کمالسٹ انتہا پسند نظام کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ ان کا کردار، بے لوث خدمت اور بے مثال جد و جہد راستہ ہموار کرنے میں معاون ہوئی اور نام نہاد ”سیکولر اقدار” کے پاسدار انہیں حسرت سے اقتدار کی زمام اپنے ہاتھ میں لیتے دیکھتے رہ گئے۔

2003ء میں رجب طیب ایردوآن ساری رکاوٹیں عبور کرکے وزیر اعظم منتخب ہوگئے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ استنبول کی میئرشپ کے دوران اپنی کارکردگی سے قوم کا دل جیتنے والا ایردوآن وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے سے زیادہ لگن کے ساتھ قوم کی خدمت میں جت گیا اور قدم قدم پر دنیا کو حیران کرتا چلا گیا۔ کچھ ہی عرصے میں ایردوآن نے ملکی معیشت کی سانسیں بحال کیں، ”لیرا” کی قدر بڑھائی، سیاسی استحکام قائم کردیا، صفائی ستھرائی کا نظام بہتر بنا دیا اور ترکی کے طول و عرض میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا دیا۔ 2003ء سے اب تک کے مختصر عرصے میں طیب ایردوآن نے ایک سے بڑھ ایک شاندار کامیابی اپنی قوم کی جھولی میں ڈالی ہے۔ عالمی معاشی غارت گروں کا دریوزہ گر ترکی آج الٹا عالمی مالیاتی اداروں کو قرض فراہم کر رہا ہے۔ وہ یورپی یونین جو ترکی کے ہاتھ میں سالہا سال سے موجود الحاق کی درخواست کو حقارت سے ٹھکراتی آرہی تھی، آج وہ الٹا ترکی کی مستحکم معیشت پر رال ٹپکا رہی ہے۔

انتہا پسند سیکولر ازم کے تسلط نے ترکی کو اسلامی برادری سے کاٹ کر رکھ دیا تھا، آج رجب طیب ایردوآن نے نہ صرف ترکی کو دوبارہ مسلم امہ سے جوڑ دیا ہے، ماضی کے ایمانی، تہذیبی اور جذباتی و نظریاتی رشتے بحال کردیے ہیں، بلکہ ترکی کو عالم اسلام کی قیادت کے منصب پر بٹھا دیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ الغائے خلافت کے بعد سے عالم اسلام میں ترک قوم کے بارے میں کسی قدر منفی جذبات و خیالات پیدا ہوئے تھے، رجب طیب ایردوآن نے وہ سارے داغ دھو دیے، اب ترک قوم عالم اسلام کا قابل فخر حصہ بن چکی ہے۔

رجب طیب ایردوآن اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت آج مسلم امہ کے ہر فرد کے دل میں بستے ہیں اور دنیا کا ہر مسلمان انہیں اپنا قائد و رہبر سمجھتا ہے۔ ان کے دم قدم سے بڑے عرصے بعد آج امہ کا تصور حقیقی معنوں میں دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ جدید ریاستی نظام نے مسلمانوں کو الگ الگ قومی ریاستوں میں بانٹ کر امت کے تصور کو کمزور کردیا تھا۔ دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ اب ”قوم” اور ”وطن” کسی بھی دوسرے جذباتی رشتے پر فائق ہوں گے۔ اسی بات کی طرف حکیم مشرق علامہ اقبال نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

جناب ایردوآن نے یہ ”کفن” پھاڑ کر اس ”بندوبست” کے منہ پر لپیٹ دیا اور امہ کے مرے ہوئے تصور کو قومی ریاستوں کی سرحدوں کی قید سے نکال کر حیات نو بخش دی۔ انہوں نے فلسطین کاز کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کا اظہار کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ جدید ریاستی نظام کی باڑھ مسلمانوں کی عالمگیر اخوت کا گلا نہیں گھونٹ سکتی۔ 2009ء میں ایردوآن نے وزیر اعظم کی حیثیت سے ڈیووس جیسی طاقتور اقتصادی کانفرنس میں اسرائیلی صدر کو قاتل کہہ کر اس کا خطاب سننے سے انکار کردیا تو دنیا کو یقین نہیں آیا کہ یہ اسی ترکی کے وزیر اعظم ہیں، جہاں مسلم خواتین کے اسکارف تک پر پابندی تھی! ایردوآن جب اس کانفرنس کو ادھورا چھوڑ کر واپس آئے تو ترک قوم نے ان کا ایک ہیرو کی طرح استقبال کیا، جو اس بات کی علامت تھا کہ اب ترک قوم نے اپنے ماضی سے رشتہ مضبوط کر لیا ہے۔اس کے بعد غزہ کی ناکا بندی ختم کرنے کے لیے ترکی نے فریڈم فلوٹیلا کے نام سے ایک امدادی قافلہ بھیجا، جسے اسرائیلی فورسز نے غزہ کے قریب کھلے سمندر میں گولیوں کی باڑ پر رکھا۔ اس واقعے نے اسرائیل کی درندگی کو بے نقاب کردیا اور جناب ایردوآن نے اسرائیل کے ساتھ ترکی کے دیرینہ تعلقات فوراً منقطع کرلیے، یہاں تک کہ اسرائیل کو بالآخر ترکی کی شرائط تسلیم کرنا پڑیں۔

2011ء میں ”عرب بہار” کی لہریں ترکی کے پڑوس میں بھی اثر انداز ہوئیں۔ شام کے عرب بہار کی لپیٹ میں آنے کے بعد خطے میں معاہدہ سیورے (1920ئ) کی پیدا کردہ ”کرد شورش” نے سر اٹھایا، تو ترکی کے لیے امن و سلامتی کے سنجیدہ مسائل کھڑے ہوگئے۔ کرد خطے میں عربوں اور ترکوں کی طرح ایک بڑے نسلی گروہ کی حیثیت سے موجود ہیں، کردوں کی اکثریت اہل سنت حنفی ہے، کچھ دیگر مذہبی اعتقادات کے بھی پیروکار ہیں، تاہم بلوچوں کی طرح ان کی بھی کوئی الگ وطنی شناخت نہیں ہے۔ یہ مغربی ایران، جنوب مشرقی ترکی اور شام و عراق کے شمال میں ان سرحدی علاقوں میں آباد ہیں، جو زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے ملتے ہیں، مگر بد قسمتی سے چار الگ ملکوں میں منقسم ہیں۔ معدودے چند کرد پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بھی (ہجرت کرکے) آباد ہیں۔ معاہدہ سیورے میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرکے عربوں اور ترکوں کی طرح کردوں کو بھی الگ ”قومی وطن” دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ ترکی میں کردوں کی آبادی اور کرد علاقہ باقی تین ملکوں کی نسبت حجم اور رقبے کے لحاظ سے زیادہ ہے۔ عالمی کھلاڑیوں کا یہ منصوبہ سامنے آتے ہی ترکی میں مصطفی کمال پاشا کے زیر قیادت ”نوجوانانِ ترک” نے اسے مسترد کر دیا اور انہوں نے غیر ملکی فوجوں کے خلاف اناطولیہ میں جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ میں غیر ملکی قابضین کو شکست ہوئی اور مصطفی کمال عراق اور شام کی سرحد تک اس پورے علاقے کو ”جدید ترکی” کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوگئے اور ”غازی” کہلائے۔ ساتھ ہی کردوں کی الگ قومی ریاست کا خواب بھی کرچی کرچی ہوگیا۔ اس جنگ کی مناسبت سے آج بھی ترکی میں ”یومِ ظفر” منایا جاتا ہے۔

خلافت کی حدود کا تحفظ و دفاع چونکہ جناب مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی ترجیح نہیں تھا، بلکہ وہ یہی چاہتے تھے کہ ”عالمگیر” سلطنت کی بجائے ”جدید قومی ریاستی نظام” کے تقاضوں کے مطابق ترکوں کی الگ قومی ریاست پر اکتفا کر لیا جائے، چنانچہ تین برس بعد خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ عراق، شام اور ترکی جیسی چھوٹی قومی ریاستیں وجود میں آئیں تو ان علاقوں میں موجود کردوں نے اپنی الگ ریاست کے لیے ہتھیار اٹھالیے۔ ان چاروں ملکوں میں کردوں کی اس جدو جہد کا الگ رنگ رہا ہے، تفصیل کا یہ موقع نہیں، تاہم عراق اور ترکی کے کردوں نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ مسلسل بر سر جنگ ہیں۔ شام کے بحران میں عالمی قوتوں نے ترکی کو کمزور کرنے کے لیے عراق و شام کے کردوں کو شہ دی، جس کے نتیجے میں کرد علیحدگی پسند تنظیم نے ترکی کی حدود میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کردیں۔ ایردوآن خطرات کے کھلاڑی ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک جی دار کپتان کی طرح فرنٹ سے lead کرنے پر یقین رکھتے ہیں، چنانچہ انہوں نے اس شورش کو اپنی سرحدوں کا رخ کرنے سے پہلے وہیں کچلنے کا فیصلہ کیا، جہاں یہ سر اٹھا رہی تھی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے انجام کی پروا کیے بغیر عراق (موصل) اور شام (کوبانی) کی سرحدوں میں گھس کر شورش پسندوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔ شام میں آج بھی ترک فوجیں ایک طرف شر پسندوں (کرد علیحدگی پسندو داعش) کا قلع قمع کر رہی ہیں، دوسری طرف بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے جیش الحر (عالمی سطح پر تسلیم شدہ عوامی لشکرِ آزادی) کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی شام کا بحران باوقار انداز میں حل کرنے میں بھی مصروف ہے۔ آستانہ کانفرنس اس کا بین ثبوت ہے۔ حلب میں قتل عام روکنے اور بچی کھچی آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں بھی ترکی کا مثبت کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہماری دعا ہے کہ جناب ایردوآن اپنے مشن میں کامیاب ہوں اور خطے میں لگی ہوئی جنگ و جدل کی اس آگ سے ترکی کا دامن سلامت اور محفوظ و مامون رہے۔

ایردوآن سے پہلے ترکی دور دور تک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایک تاریکی سی تاریکی اور تنہائی سی تنہائی تھی، جس میں ترکی کا وجود گم تھا۔ ایردوآن نے ترکی کو نہ صرف تاریکی اور تنہائی کے دور سے نکالا، بلکہ آج ترکی آگے بڑھ کر دنیا میں فعال کردار ادا کر رہا ہے اور بہت سے معاملات میں تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی دنیا کے لیے مینارۂ نور (Light House) کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ کوڑی کوڑی کا محتاج ترکی آج ایردوآن کی قیادت میں دنیا کے 17ملکوں میں امدادی منصوبے چلا رہا ہے۔ برما اور فلسطین کے مسلمانوں کی امداد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، مقبوضہ کشمیر کے حالات دنیا کے سامنے لانے کی بھی ترکی کئی کوششیں کر چکا ہے۔ چین کے زیر تسلط مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ جس کا اصل نام ”مشرقی ترکستان” ہے، کے باشندے اویغور ترک نژاد ہیں۔ ایردوآن ان کے مسائل سے بھی غافل نہیں ہیں۔ اویغور باشندوں کو ایردوآن کے ترکی میں خوش دلی سے خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ان کی ہر طرح دلداری کی جاتی ہے۔ آج دنیا شام میں جنگ کی آگ دہکا کر خود تماشا دیکھ رہی ہے، مگر یہ ترکی ہے جس نے تین ملین شامی مہاجرین کو انتہائی عزت و اکرام کے ساتھ پناہ دے رکھی ہے اور ان کی اپنے شہریوں کی طرح خاطر مدارات کر رہا ہے۔

ترکی کے ان چند قابل ذکر اقدامات کا سرسری جائزہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ایردوآن نے مختصر عرصے میں اپنے وژن، اپنی جد و جہد اور اہلیت و لیاقت کے بل پر ترکی کو اندھیروں سے نکال کر تعمیر و ترقی کی روشن راہوں پر گامزن کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف ترکی کے عوام بلکہ پوری دنیا کے مسلمان اور عام انصاف پسند لوگ ایردوآن کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ان کی کامیابیوں کے لیے ہمہ وقت دعا گو ہیں۔ رجب طیب ایردوآن کا وژن ابھی مکمل نہیں ہوا۔ وہ بہت دور تک جانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ترک قوم کو ان کو پہلے سے بڑھ کر سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ جناب ایردوآن اب ایک انتہائی انقلابی قدم اٹھانے جا رہے ہیں۔ وہ ترکی کے نظام حکومت کو پارلیمانی سے بدل کر صدارتی نظام میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ صدارتی نظام کی خوبیاں کسی سے مخفی نہیں۔ مختصر یہ کہ آج دنیا میں جتنی بھی مستحکم ریاستیں ہیں، ان کی اکثریت صدارتی نظام کی حامل ہے۔ صدارتی نظام سراسر ترک قوم کے مفاد میں ہے، مگر وہاں کی اپوزیشن بالخصوص کمالسٹ انتہا پسند اس متوقع تبدیلی کو اپنے مستقبل کے لیے خطرہ محسوس کرکے اس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے میں شب و روز ایک کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ترک قوم 16اپریل کے ریفرنڈم میں ایردوآن سے پہلے اور ایردوآن کے آنے کے بعد کے ترکی میں موجود واضح فرق کو نظر انداز نہیں کرے گی اور کمالسٹ انتہا پسندوں کے بہکاوے میں آئے بغیر ایردوآن کے وژن کو سپورٹ کرے گی۔ ترک قوم کو جاننا چاہیے کہ یہ ریفرنڈم یا تو ترکی کو آگے لے جائے گا یا ماضی کے اندھیروں میں واپس دھکیل دے گا۔ یہ ترک قوم کے شعور کا امتحان ہے، پوری دنیا کے ساتھ ہم بھی دیکھ رہے ہیں روشنی اور اندھیرے میں سے وہ کس کا انتخاب کرتی ہے اور اس امتحان سے کس طرح سرخ رو ہو کر نکلتی ہے۔ اللہ ترکی کا حامی و ناصر ہو!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے