آئیں پنجاب کو گالیاں دیں

پیلا سوال : کیا پنجابی شاؤنزم محض ایک الزام ہے یا اس میں کچھ حقیقت ہے؟۔۔۔۔میری ناقص رائے میں یہ الزام نہیں ایک حقیقت ہے۔

دوسرا سوال : اس وقت با جماعت جو سینہ کوبی ہو رہی ہے کہ پنجاب میں سماج اور انتظامیہ مل کر پختونوں کے ساتھ ظلم کر رہی ہیں ، کیا یہ بھی ایک حقیقت ہے؟ میرے خیال میں یہ حقیقت نہیں ایک بے ہودہ الزام ہے اور ہم عصبیتوں سے بالاتر ہو کرایک پاکستانی کے طور پر دیانت کے ساتھ معاملہ کریں تو ہم اس چاند ماری کی وجوہات باآسانی تلاش کر سکتے ہیں۔

پنجابی شاؤنزم میر ے نزدیک ایک حقیقت ہے اور میں اس پر متعدد دفعہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر چکا ہوں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اپنے موقف کو ایک عصبیت کو رنگ دے دوں اور پنجاب کے نامہ اعمال میں وہ گناہ بھی لکھ دوں جو اس نے کیے ہی نہ ہوں ۔ اس وقت دعوت عام ہے ، آئیے پنجاب کو گالی دیں۔ایک مہم کھڑی کر دی گئی ہے کہ پنجاب میں تو پختونوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے ان کی تذلیل کی جا رہی ہے ۔ میں پنجابی شاؤنزم کا ناقد ہونے کے باوجود اس شیطانی مہم کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے نہیں کہ میں ایک پنجابی ہوں بلکہ اس لیے کہ یہ مہم دلائل پر نہیں خبث باطن پر انحصار کر رہی ہے۔جو آواز جاہلیت کی عصبیت پر بلائے اس کا ساتھ نہیں دیا جا سکتا۔حق کا معاملہ البتہ الگ ہے اور یہ حق ہی ہے جو مجھے ایک پنجابی ہونے کے باوجود اس حقیقت کے اعتراف سے روک نہیں سکتا کہ پنجابی شاؤنزم موجود ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔

ایک دوست کا ایس ایم ایس آیا۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ کیا وجہ ہے صرف پختونوں سے کوائف چیک کیے جا رہے ہیں اور پنجابیوں سے کچھ نہیں پوچھا جا رہا ۔فیس بک پر ایک صاحب نے گرہ لگائی پنجاب کو اس کا پاکستان مبارک۔یہ نامبارک مہم سادگی یا غم وغصے میں نہیں چلائی جا رہی اس کے واضح مقاصد ہیں ۔لیکن ان پر بات کرنے سے پہلے ذرا اس سوال کا جواب کہ کوائف صرف پختونوں کے کیوں چیک کیے جا رہے ہیں۔

میں پختون نہیں ہوں۔بائیس سال سے اسلام آباد کا رہائشی ہوں۔میرے استعمال میں جو گاڑی ہے وہ بھی پشاور کی نہیں بلکہ لاہور نمبر کی ہے۔اب سنتے جائیے گذشتہ ہفتوں میں میرے کوائف کتنی بار چیک کیے گئے۔پرسوں شام گھر سے نکلا ۔لائیوٹی وی شو میں پہنچنا تھا ۔راستے میں تین ناکوں پر روکا گیا۔شو شروع ہونے میں چند منٹ باقی تھے جب سٹوڈیو پہنچا۔ شو کر کے نکلا تو بلیو ایریا کے ناکے پر پھر روک لیا گیا۔چند روز پہلے بچوں کو لے دامن کوہ گیا راستے میں دو جگہ گاڑی روک کر تسلی کی گئی۔چند پولیس اہلکار گھر آ کر شناختی کارڈ وغیرہ بھی نوٹ کر کے لے گئے ہیں ۔نوازش علی گوندل ایڈووکیٹ کی والدہ کی وفات پر کوٹ مومن جانا ہوا۔ موٹر وے سے اترتے وقت گاڑی روک لی گی اور مکمل کوائف چیک کر کے تسلی کی گئی۔ واپسی پر موٹر وے پرچڑھنے لگا تو ایک بار پھر اسی عمل سے گزرنا پڑا۔اسلام آباد میں جس سوسائٹی میں رہتا ہوں جتنی دفعہ اندر گاڑی لاتا ہوں اسے چیک کیا جاتا ہے۔۔۔تو میرے دوست میں تو پنجابی ہوں ۔میرے ساتھ یہ کیوں ہو رہا ہے۔

یہ پنجابی اور پختون کا مسئلہ نہیں ہے یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے جو آن پڑی ہے اور جسے جتنی سمجھ آ رہی ہے وہ اس کے تناظر میں حفاظتی اقدامات اٹھا رہا ہے۔اس میں ہو سکتا ہے کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہوں۔انتظامی عہدوں پر بیٹھے سبھی لوگوں کی سمجھ بوجھ ایک جیسی نہیں ہوتی۔انہی غلطیوں کے تناظر میں کل بھی عرض کی تھی کہ ہم پختونوں کی قربانیوں اور صبر کے مقروض ہیں اس لیے سیکیورٹی کے تقاضے سر آنکھوں پر لیکن ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔لیکن اس کا اب یہ مطلب بھی نہیں کہ بیمار ذہنیت سماج کو سینگوں پر ہی لے لے۔پولیس سے ایک غلطی ہوئی فورا معذرت اور تصحیح کر دی گئی۔ایک تاجو تنظیم کا نوٹس بھی زیر بحث ہے اب سوال یہ ہے کیا اس میں یہ کہا گیاکہ پختون اپنا کاروبار چھوڑ کے چلے جائیں۔ہر گز نہیں صرف یہ کہا گیا کہ ذراکوائف درج کرا دیجیے اور اس میں بھی ذرا انداز تخاطب دیکھیے ۔اس میں پختون بھائیوں سے گذارش کے الفاظ ہیں۔بھائی کے رشتے کا احساس یہاں بھی موجود ہے۔

آج اچانک خیال آیا ابھی مکمل سروے تو نہیں ہو سکا لیکن نامکمل سروے کی بنیاد پر اعدادوشمار یہ ہیں کہ اٹھارہ مارکیٹوں کے سربراہ پختون ہیں۔ آبپارہ مارکیٹ ہی چلے جائیے اور دیکھیے کتنے پختون دکاندار آرام سے کاروبار کر رہے ہیں ؟کیا کسی ایک کو بھی تنگ کیا گیا؟ کوئی ایک بھی کاروبار چھوڑ کے جانے پر مجبور ہوا؟پورے پنجاب میں پختونوں کے کاروبار ہیں؟کتنوں کو نکالا گیا؟کتنوں کے کاروبار بند ہوئے؟کتنوں کو دھمکیاں دے کر یا مار کر نکالا گیا جیسے بلوچستان سے پنجابیوں کو نکالا گیا ؟اور کتنوں کی املاک پر پنجابی تاجروں نے قبضہ کیا؟ کیا کوئی ایک مثال بھی آپ پیش کر سکتے ہیں؟کوئی ایک مثال؟نجی سیکورٹی اداروں میں کتنے پختون کام کر رہے ہیں کیا کسی ایک کو بھی نکالا گیا؟

اب سوال یہ ہے کہ اگر ایسا کچھ نہیں ہوا توپھر یہ مہم کیوں؟ اس کے بہت سارے محرکات ہیں۔سیاسی بھی اور تزویراتی بھی۔یہاں بعض لوگ قوم پرست سیاست کے تاجر ہیں۔کے پی کے سے ایک پنجابی عمران خان نے ان کا بوریا بستریوں لپیٹ دیا ہے جیسے ایزی لوڈ ہوتا ہے۔اب اس کا مقابلہ کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوم پرستی کو فروغ دیا جائے۔اس مہم میں قوم پرستوں کے ساتھ وہ اسلام پسند بھی اگر آپ کو نظر آ رہے ہیں جو باہم مل کر کے پی کا آئندہ الیکشن لڑنے جا رہے ہیں تو یہ محض اتفاق نہیں ہے۔پختونوں کے حقوق کے یہ مبینہ علمبردار بتائیں کہ ایک پنجابی وزیر اعلی اور پنجابی وزیر اعظم کے دستر خوان سے فیض حاصل کرنے میں کون پیچھے رہا۔ بھائی کو گورنر بنوانا ہو اور موج کرنی ہو تو پنجابی وزیر اعظم اچھا ۔لیکن سیاست کے لیے پنجاب کو گالی ضرور دینا ہے۔مولانا فضل الرحمن ہوں یا کے پی اور بلوچستان کے قوم پرست ۔۔۔۔کس میں ہمت ہے نواز شریف کی حزب اختلاف میں بیٹھ سکے۔سبھی تو شریک اقتدار ہیں۔سندھ کے خورشید شاہ کو بھی برادر مکرم اعجاز الحق وفاقی وزیر برائے امور اپوزیشن کہتے ہیں۔پنجابی وزیر اعظم کے دربار سے فیض حاصل کرتے رہنا اور پنجاب کو گالی دیتے رہنا۔یہ کون سا انصاف ہے؟تاہم اس معاملے کا تزویراتی رخ بھی اہم ہے اسے بھی دیکھا جانا چاہیے۔

اس سارے کھیل میں وہ مبینہ اہل دانش بھی شامل ہیں جن کی جملہ مہارت کی معراج طنز کرتے رہنا اور تین چار فقرے اچھال کر آگے بڑھ جانا ہے۔ریاست پر ان کا اعتراض عملا یہ ہے کہ آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہو۔انہیں ہر معاملے میں سینہ کوبی کرنا ہوتی ہے۔یہ دلیل اور توازن کے ساتھ معاملے کا جائزہ لینے کی صلاحیتوں سے یکسر محروم نظرہیں۔اس کی وجہ بد دیانتی ہے یا جہالت۔۔۔اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔

پنجابی سماج میں پختون سے نفرت میں نے تو آج تک نہیں دیکھی۔میں پنجابی ہوں لیکن میری پسندیدہ ٹیم زلمی ہے اور اس کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹر اور پھر کراچی۔۔۔۔۔۔اور یہ صرف میرا معاملہ نہیں۔کتنے ہی پنجابیوں کو جانتا ہوں جو زلمی کے ساتھ ہیں۔گذشتہ پی ایس ایل میں تو ماہر امور کرکٹ محسن حدید نے جو خاص لاہوریے ہیں کہا تھا کہ پختونوں کی قربانیوں کے اعتراف میں زلمی کا ساتھ دیا جائے۔

ہم پاکستانی ہیں اورپختون ہمارے بھائی ہیں۔وہ اس ملک کی شان ہیں۔ دل کو ٹٹول کے بار ہا دیکھا ان سے تعصب کا شائبہ تک نہیں ملا۔ نفرت کے سوداگر وں کو ہم سب کی جانب سے شٹ اپ کال دی جانی چاہیے۔میری طرف سے شٹ اپ۔

پاکستان زندہ باد
پختون بھائی پائندہ باد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے