دہشت گردی کے خلاف جنگ

چند روز قبل ہونے والے بم دھماکوں اور ان کی وجہ سے پھیلنے والے خوف وہراس نے نیشنل ایکشن پلان سے متعلق کئی سوالات جنم دیے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر کس حد تک عملدرآمد ہوا، کیا کھویا، کیا پایا اور ابھی اس پر مزید کتنا کام باقی ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوالات زبان زد عام ہیں، اس لیے کہ نیشنل ایکشن پلان لانچ کرتے ہی کچھ کامیابیوں کو دیکھ کر ہم نے فتح وکامرانی کے جھنڈے گاڑنا شروع کردیے تھے۔

نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے ریاست نے دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کی سنجیدہ کوشش کا آغاز کیا۔ ملک کے اندر اور باہر سے الزامات لگائے جاتے تھے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ نہیں ہے، بلکہ دہشت گردی کو تقویت دیتا ہے۔ ان الزامات کی روشنی میں سیاسی و عسکری قیادت کی باہمی مشاور ت سے نیشنل ایکشن پلان، اپیکس کمیٹیاں، فوجی عدالتیں بنائی گئیں اور نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک نصاب کے طور پر مرتب کیا گیا۔ بلاشبہ یہ ”نصاب“ پاکستان کی قومی خودمختاری اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے خاصی اہمیت رکھتا ہے۔

آج نیشنل ایکشن پلان اور اپیکس کمیٹیوں کو اڑھائی سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، اس سے دہشت گردی کم ضرور ہوئی ہے، ختم نہیں ہوئی۔ دہشت گردی مکمل طور پر کیوں ختم نہ ہوسکی، اس کی ایک اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایپکس کمیٹیوں کے باقاعدگی سے اجلاس نہیں ہوئے۔ دوسرا کمیٹیوں، صوبائی حکومتوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان موجود فاصلے اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد نے بھی منفی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ساتھ سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کی پشت پناہی اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں بھی سنجیدہ نہیں رہیں، بلکہ ان طاقتور لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی رہی، جس سے نیشنل ایکشن پلان کے نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ عمران خان کی دھرنا تحریک، حکومت اور اپوزیشن کی محاذآرائی، پاکستان عوامی تحریک کا معاملہ و دیگر سیاسی مسائل کی وجہ سے بھی ایک خلا رہا۔ خودوفاقی وزیر داخلہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ چند نکات جو وفاق کے ذمے تھے، ان پر ہم نے کام کیا ہے، لیکن صوبائی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان کے 16نکات پر عملدرآمد نہیں کرسکیں۔

9/11کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے معاملات کو بنیادی پالیسی کے تحت چلایا اور اس پالیسی کے تحت یہ طے کیا کہ پورے ملک میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو اوپر (وفاق) سے ہی مانیٹر کیا جائے گا، مگر ہم نے دہشت گردی کے معاملے کو بھی 18ویں ترمیم کی طرح صوبوں پر چھوڑ دیا، حالانکہ یہ ہرگز صوبائی معاملہ نہیں، بلکہ قومی معاملہ ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی قیادت خود وزیر اعظم نے کرنا تھی، مگرپہلے عمران خان اور طاہر القادری نے انہیں کچھ نہ کرنے دیا، اب پاناما کیس سے انہیں اور ان کے وزرا کو فرصت نہیں، چنانچہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے معاملے میں بہت سے خلا وجود میں آئے۔ نیکٹا کی تجویز اچھی تھی، مگر بد قسمتی سے اسے صحیح معنوں میں عمل کے قالب میں نہیں ڈھایا گیا، اب وہ ایک غیر فعال کاغذی ڈھانچہ ہی رہ گیا ہے، پولیس کی کپیسٹی نہیں بڑھائی جاسکی، بھارت اور دیگر ممالک کی مداخلت کو نہیں روکا جاسکا۔ کسی حدتک معاملات ضرور بہتر ہوئے ہیں مگر اتنی بہتری ناکافی ہے۔ اگر دہشت گردی کے معاملے میں بیانیہ بدلنا ہے تو پھر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو اس جنگ کی قیادت کرتے ہوئے نظر آنا چاہیے۔

ہمیں وسیع النظری سے کام لینا چاہیے، سانحات سے پہلے تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سانحات کے بعد ردعمل دینے کی بجائے حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔ ہمارا رویہ ہمیشہ حکمت سے محروم جبکہ ماردھاڑ سے بھرپوررہا ہے۔ سانحہ لاہور کے بعد جس طرح لوگ پولیس مقابلوں میں قتل ہوئے ہیں، کیا باوقار اور خود مختار ریاستوں کے یہی رویے ہوتے ہیں؟مانا کہ وہ سب دہشت گرد ہوں گے، مگر کیا انہیں اسی لیے رکھا گیا تھا کہ ہم بدلے میں گنتی پوری کرسکیں۔ انہیں فوجی عدالتوں کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا، دہشت گردی کے مقدمات میں انہیں پھانسی کیوں نہیں دی گئی؟

ہم نے کبھی نہیں سنا کہ امریکا جیسے ملک نے کبھی یہ دعویٰ کیا ہوکہ ہم نے دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی ہے اور آج کے بعد یہاں کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوگا، البتہ وہ یہ ضرور کہتے ہیں ہم دہشت گردی سے بچنے کے لیے بہترین پیشگی اقدامات کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں کریڈٹ لینے کے لیے دہشت گردوں کا صفایا کرنے اور ان کی کمر توڑنے کے بیانات دیے جاتے ہیں، پھر جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی تمام تر کوششوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس سے عوام کا حوصلہ کم ہوتا ہے اور ملک دشمن طاقتوں کوتقویت ملتی ہے۔ اگر ہم نے اس معاملے میں مستقل کامیابی حاصل کرنی ہے تو ملک میں بلا استثناءقانون کی حکمرانی یقینی بنانا ہوگی، انٹیلی جنس ایجنسیز اور پولیسنگ کے نظام کو بہتر اور فعال بنانا ہوگا، رینجرز اور فوجی آپریشن ضرور کیے جائیں، مگران کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے قائم کیے جانے ضروری ہیںجو انہیں کور فراہم کررہے ہوں۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اقتصادی راہداری و دیگر معاشی منصوبے ہماری سیکورٹی کے ساتھ وابستہ ہیں، اگر ملک میں امن ہوگا تو ہی ہم اپنے اہداف حاصل کرسکیں گے۔ خطے کی موجودہ صورتحال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمارے لیے ”مارو یا مرجاو “ والا مسئلہ ہے، کیونکہ ہمارا مقابلہ بھارت سے ہے جسے افغانستان کی صورت میں ایک وسیع پناہ گاہ بھی میسر ہے۔ آج پاک افغان تعلقات کے تناظر میں ہماری خارجہ پالیسی پر غور کی ضرورت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ افغانستان کے فطری اتحادی ہم ہیں، مگر افغانستان کی سرزمین کا ہمارے خلاف استعمال ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان ہمارے دشمنوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ ہمیں ایک مرتبہ پاک افغان تعلقات کو ملکوں کی بجائے قوموں کے تعلقات کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور ان تعلقات میں موجود سردمہری کو ختم کرکے بااعتماد دوستوں کی طرح دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے