ملک کی سب سی بڑی یونیورسٹی میں من پسند افراد کی غیر قانونی تقرریوں کا انکشاف

رجسٹرار قائد اعظم یونیورسٹی نے نئے یونیورسٹی سینڈیکیٹ کو بھی دھوکہ دیتے ہوئے تین برس کیلئے ایسے شخص کو سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹر نیشنل ریلیشنز (ایس پی آئی آر) کا سربراہ تعینات کروا دیا جسکی پی ایچ ڈی ڈگری کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں

ذرائع کے مطابق یکم مارچ کو ہونے والے سینڈیکیٹ اجلاس کے ایجنڈے میں ڈائریکٹر ایس آئی پی آر کی تعیناتی بھی شامل تھی۔ سینڈیکیٹ نے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نذیر حسین کو ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔ حالانکہ ان کی پی ایچ ڈی ڈگری اور ان کی تعیناتی کی حوالے سے ان کے خلاف تحقیقات جاری تھیں۔ لیکن رجسٹرار قائد اعظم یونیورسٹی نے سینڈیکیٹ سے یہ حقیقیت چھپائی اور ممبران کو اصل حقائق سے اگاہ نہیں کیا۔

یاد رہے کہ رجسٹرار ڈاکٹر شفیق الرحمن کے خلاف بھی کرپشن بے ضاطگیوں کی تحقیقاتی رپورٹ میں ان پر عائد پچاسی فیصد الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ جن میں گیارہ غیر قانونی تقرریاں اور تعیناتیاں بھی شامل ہیں۔ نئے سینڈیکیٹ نے رجسٹرار کے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔ سینڈیکیٹ کا دوسرا سیشن کل (پیر) کو منعقد ہوگا۔

ذرائع کے مطابق وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی ممبران پر مشتمل سابق سینڈیکیٹ کے فیصلوں کو موجودہ سینڈیکیٹ سے منظور کروائیں۔شعبہ دفاع اور اسٹریٹیجک علوم (ڈی ایس ایس) کے سربراہ ڈاکٹر نصراللہ مرزا نے نومبر دو ہزار سولہ میں وائس چانسلر سے درخواست کی تھی کہ ڈاکٹر نذیر حسین کی ڈگری کے معاملہ پر تحقیقات کروائی جائیں اس پر وائس چانسلر نے دو مرتبہ یاد دہانی کرانے کے بعد تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے۔

اپنی درخواست میں ڈاکٹر نصراللہ نے معاملہ اٹھایا کہ ڈاکٹر نذیر کی بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ترقی جس پی ایچ ڈی ڈگری کی بنیاد پر ہوئی اس کا ریکارڈ یونیورسٹی کے پاس موجود نہ ہونے کے باعث اب تک اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔جبکہ ان کے مقالے کو غیر ملکی ریفریز نے اگست 2009 میں غیر معیاری قرار دے دیا تھا ، اس کے باوجود ڈاکٹر نذیر ایس آئی پی آر میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدہ پر تعینات ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہ ڈاکٹر نذیر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی چھپائے ہوئے ہیں جو نہ تو قائد اعظم یونیورسٹی کے لائبریری میں موجود ہے اور نہ ہی بہاوالدین ذکریہ یونیورسٹی کے کنٹرولر کے پاس اس کی کاپی موجود ہے، جہاں سے انہیں پی ایچ ڈی ڈگری دی گئی۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ریفریز کی وہ رپورٹ جس میں ڈاکٹر نذیر کی (ڈی ایس ایس) میں بطور امید وار برائے ایسوسی ایٹ پروفیسر نامزدگی کو مسترد کیا گیا تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ انتظامیہ سے غائب کر دی گئی ہے. یاد رہے انتظامی سیکشن رجسٹرار قائد اعظم یونیورسٹی کے ماتحت ہے۔

ستمبردو ہزار پندرہ میں سینڈیکیٹ اجلاس میں ڈاکٹر نذیر کی بطور پروفیسر ترقی کو سابقہ ممبر سلیکشن بورڈ اور ممبر فیڈرل بپلک سروس کمیشن واجد رانا کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں ڈاکٹر نذیر کی تقرری میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی پر مسترد کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ جنوری کے اب آخر میں ہونے والے قائم مقام ڈائریکٹر تقرری میں بھی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔

سینڈیکیٹ کی جانب سے ایک ایسے شخص کی ڈائریکٹر ایس پی آئی آر سی تقرری کہ جس کا اپنا تعلیمی ریکارڈ متنازعہ ہے شعبے کے طلبا اور اساتذہ کے لئے پریشان کن ہے۔ دوسری جانب وائس چانسلر کی جانب سے ڈاکٹر نذیر کے خلاف شروع کی تحقیقات کے حوالے سے بھی متعلقہ لوگوں میں شکوک پائے جاتے ہیں۔کیونکہ تحقیقاتی کمیٹی میں کوئی بھی غیر جانب دار فرد شامل نہیں کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق ڈاکٹر نصراللہ مرزا کو وائس چانسلر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر ڈاکٹر نذیر کے خلاف تحقیقات میں ان کے الزامات ثانب نہ ہوسکے یونیورسٹی ڈاکٹر نصراللہ کے خلاف کارروائی کرے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے