عورت، معاشرہ اورترقی کاسفر

ہمارا مذہب اسلام ہمیں امر بالمعروف و نہی المنکر کا درس دیتا ہے ،ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جہاں برائی دیکھو اسے طاقت کے ذریعے روکو اگر یہ نہ ہو سکے تو اسے زبان سے روکو اگر یہ بھی ناممکن ہو تو اسے دل میں بر ا مناؤ مگر یہ کمزور ترین ایمان کی علامت ہے ،یہ حدیث اپنا سیاق و سباق بھی رکھتی ہے ،یہ ضروری نہیں کہ اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جائے یہ ایک علیحدہ بحث طلب موضوع ہے۔

ہم خود کو اسلام کا پیروکار تو کہتے ہیں مگر اس پر عمل تو دور کی بات غور و فکر بھی نہیں کرتے ہمارے سامنے کوئی غلط فعل سر انجام دے رہا ہو تو ہم اس کا ذاتی فعل کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں ۔یہ معاملہ اس کا نہیں ہم سب کا ہے ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں برائی کو پھیلنے سے پہلے ہی روک دیا جائے تو معاشرہ اس ناسور سے بچ سکتا ہے ۔

آج کل ہمارے ملک میں روشن خیالی کے نام پر ایک نیا کھیل کھیلا جارہا ہے ،عورتوں کے حقوق کی بحالی کے نام پر معاشرے کی کونسی خدمت کی جارہی ہے ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید کر رہے ہیں ،مغرب میں تو حقوق نسواں کی شمع روشن کر کے عورت کو کوہلوں کا بیل بنادیا ہمارے ہاں بھی یہ کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے ۔کارپورٹ سیکٹر کے ہر دوسرے اشتہار میں عورتوں کو دکھایا جا تا ہے میڈیا اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیئے ان بیہودہ اشتہارات کو دھڑلے سے دکھا رہا ہے باعزت خاندان اپنی ماؤں بہنوں میں بیٹھ کر یہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتا ۔

اللہ نے فحاشی اور برائی کو شیطانی عمل قرار دیا ہے ۔!سوچئے کیا صرف چند ٹکوں کی خاطر اللہ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں ،دولت کی ہوس نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ایک ہاتھ سے ڈالر وصول کرنے والے دوسرے ہاتھ سے اپنی ماؤں بہنوں ،بیٹیوں کے سروں سے دوپٹے اتار رہے ہیں ،ہوس دولت نے شرم و حیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کر دیا ہے ۔

دین اسلام نے تو عورت کو وہ منفرد مقام دیا ہے جس کا اعتراف دوسرے مذاہب بھی کرتے ہیں محسن انسانیت محمدﷺ کی آمد سے قبل عرب معاشرے میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔عورت آپﷺ کے لیئے قابل احترام تھی آپ ﷺنے انہیں جینے کا حق دیا عورتوں کو تحفظ جو دین اسلام نے دیا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی محمدﷺ نے عورت کو وہ درجہ دیا جو آج کے جدید مغربی معاشرے میں اسے حاصل نہیں ۔

محسن انسانیت محمدﷺ نے فرمایا کہ جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ اچھی طرح اسکی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ اس کی شادی کر کے رخصتی کر دے تو وہ لڑکی اس میں اور جہنم میں آڑ بن جائے گی ،آپﷺ نے عورت کو حیثیت کو بہتر بنانے کے لیئے مردوں کو بار بار تاکیدفرمائی ہے کہ وہ عورتوں سے بہتر سلوک کریں چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بہترین مسلمان وہ ہیں جو ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں سے بہتر سلوک کرتے ہیں۔

عورت ماں،بہن ،بیٹی اور بیوی کے روپ میں ایک مقدس رشتہ ہے ۔ماں کے قدموں تلے تو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے ،بیٹی اور بہن کی صورت میں بے لوث محبت کرنے والے رشتے بنائے ہیں ،بیوی کو ایک مخلص ہم سفراور مرد کے لئے باعث سکون بنایا ہے۔قوم بنانے کے لیئے ناصرف مائیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں بلکہ بیٹی ،بہن اور بیوی جیسے رشتوں میں ڈھل کراسکا کردار وہی ہوتا ہے جو قدرت اور فطرت نے اسے عطا کیا ہے عورت اپنے ہر رنگ اور ہر رشتے میں صبر ،برداشت،قربانی ،محبت اور پرورش کی ضامن ہوتی ہے ،میں سمجھتی ہوں اچھی قوم کے لیئے صرف اچھی ماؤں تک محدود نہیں ہونا چاہیئے ،بلکہ میں کہتی ہوں کہ جیسے ایک عورت اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے ویسے ہی کسی معاشرے کے اندر اگر پڑھی لکھی اور باشعور عورتیں ہوں تو وہ اس معاشرے امن و سکون کا گہوارہ بنانے اور اسے ایک مثالی معاشرہ بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔

مگر افسوس!آج ہمارے معاشرے میں عورتوں کے پڑھے لکھے ہونے کا معیار مغربی تہذیب کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے ۔عورت کی پہچان اس کے لباس سے کی جاتی ہے ، عورت مارکیٹینگ سٹریٹجی کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے ۔میں یہ بات مانتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو کسی نہ کسی حد تک آزادی دی گئی ہے عورتوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا بھی کسی نا کسی حد تک مو قع دیا جا تاہے ۔مگر یہ سب کچھ ایک منافقانہ روش کو اپناتے ہوئے کیا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں عورت کی سلیکشن اس کی قابلیت پر نہیں بلکہ اس کے ظاہری رنگ و روپ پر کی جاتی ہے اور اگر کوئی گھریلو لڑکی ماڈرن ازم سے لاتعلق غلطی سے کہیں سیلکٹ بھی ہو جاتی ہے تو اسے ایک لبرل مائنڈ ڈویلپ کرنے کا درس دیا جاتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد اس میں بھی مغربی طور طریقوں کی جھلک نظر آنے لگتی ہے ۔

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں سب سے اہم کردار اس ملک کی حکومت کا ہوتا ہے تعمیر و ترقی کے سفر اور قومی دھارے میں خواتین کی باعزت طریقے سے شمولیت کا دارومدار بھی ملک کی حکومت پر ہوتا ہے مگر جس حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں’’موم بتی مافیا‘‘پر اپنی ساری توجہ مرکوز کی ہو اور ملکی مسائل سے بے خبر ہو اس حکومت سے خواتین کی باعزت طریقے سے قومی دھارے میں شمولیت کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔

میں سمجھتی ہوں تمام تر معاشرتی ناانصافیوں کے باوجود ملکی ترقی کے لیئے ہم عورتوں اسلامی اور معاشرتی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے ۔ہمیں اپنے ذہنوں کو اس گندے تصور سے پاک کرنا ہوگا کہ بے پردگی اور مغربی تہذیب کی پیروکاری کرتے ہوئے ہی معاشرے کی خدمت کی جاسکتی ہے ۔

میری نظر میں باوقار اور اسلامی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے بھی معاشرے کی خدمت کی جاسکتی ہے ہمارے معاشرے میں کئی باوقار خواتین گزری ہیں جنہوں نے ملک کی خدمت کی ان میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم وقارالنساء اور محترمہ بی بی شہید سر فہرست ہیں ،جنہوں نے کبھی اپنے سر سے دوپٹہ تک نہیں گرنے دیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے