پٹالہ سے حیدرآباد تک

حیدرآباد صد یوں پرانا شہر ہے اس کا تذکرہ قدیم عہد ناموں میں موجود ہے ویدیک دور میں اس کا ذکرہے جو ارُونپور کے نام سے ملتا ہے۔ارُون معنٰی ٹھنڈا اور پور معنٰی شہرکے ہیں اسکی ہوائیں اسکے ہوادان اور اسکی شامیں آج بھی بہت مشہور ہیں۔ اگر چہ آج یہاں ہوا دان تو اُس تعداد میں موجود نہیں لیکن ٹھنڈی فضائیں اور اس کی شامیں آج بھی اسی طرح سے چلتی ہیں تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو اسکا نام پٹالہ ..پٹالپور..اور نیرون کوٹ کے مختلف ناموں سے بھی ملتا ہے۔مشہورُ محققّ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے سندھ ادبی کا نفرنس 1975 ء میں پیش کئے اپنے مقالے میں کہتے ہیں جس ٹیکری (پہاڑی) پر قلعہ واقع ہے اسے نیرون کہا جاتا تھاجس کی وجہ سے اس کا نام نیرون معنیٰ قلعہ اور ٹکر معنیٰ کوٹ کے ہیں پھر وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہیں او ر آخر کار اسکا نام حیدرآباد رکھا گیا۔

حیدرآبادمیں سب سے پہلے آبادی کا تصور صرف پکا قلعہ تک ہی محدود تھا اور اس وقت اسکی آبادی تقریباً 23400ہزار تھی جب ساتویں صدی عیسوی کے آخر ی عشرے میں مشہور راجہ ’’رائے ڈاہر‘‘یہاں کا حاکم تھااور رعایا بدھ مذہب کی پیروکار تھی۔آٹھویں صدی میں اس قلعہ کو محمد بن قاسم نے فتح کیااس وقت بھی آبادی بہت کم تھی۔ا س شہر کی اصل حالت غلام شاہ کلہوڑا نے بدلی جب اسکا نا م حضرت علیؓ کے صفاتی نام حیدر پر حیدرآباد رکھا گیا۔شہروں کے عروج وزوال،ترقی و تنزلی کا دارومدارتاریخ کے رویہ سے منسلک ہوتا ہے، کیونکہ تاریخ،انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے اہم کردار اداکر تی رہی ہے۔ غلام شاہ کلہوڑا کی بھی اپنی تاریخ ہے انہوں نے بہت سی آبادیوں جن کا تعلق الگ الگ پیشے اور ذاتوں سے تھا ان کو حیدرآباد میں لا کر بسایا اور حیدرآباد کو اپنی حکومت کا تخت بنایا۔

اس وقت آبادی کے لحاظ سے حیدرآباد پاکستان کاپانچواں اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔انگریز حاکمیت میں حیدرآباد سندھ کا درالخلافہ بھی تھا۔پاکستان میں سب سے مہنگی ترین زمینوں کی خریدو فروخت میں حیدرآباد اپنا مقام رکھتا ہے ۔ حیدرآبادمیں پہلے جہاں ایک منزلہ مکان ہواکرتے تھے اُن میں ہوادان کا ہونا لازم ہوا کرتاتھا لیکن اب یہاں بڑے بڑے پلازے اور شاپینگ مالز بنتے جارہے ہیں اسی میں اب تک کا مشہور بوئلیورڈ مال ہے اور رینبو سینٹر، نسیم سینٹر،طیب کمپلکس،قائد اعظم پلازہ،گل سینٹر اورانہی میں الرحیم شاپینگ سینٹر ہے جو سندھ کے طویل پلازہ میں سے ایک ہے۔وقت کے ساتھ شہر کی آبادی میں بے حد اِضافہ ہواہے جس کا اثر حیدرآباد کی سڑکوں پر آئے دن نظر آتا ہے۔

حیدرآباد کوچار تحصلوں میں تقیسم کیا گیا ہے جن میں حیدرآباددیہی،حیدرآبادسٹی، لطیف آباداور قاسم آباد شامل ہیں۔حیدرآباد سٹی ایریا میں عام انسان چلنے پھرنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں روڈ نہیں بلکہ کسی پارکنگ ایریا کا منظر پیش کرتی ہیں۔یہ سڑکیں اسِ بھاری ٹریفک کے لیے ناکافی ہیں کیونکہ انگر یزدور میں جہاں ایک روڈ پر دو طرفہ گاڑیاں چلتی تھی اب یہاں اِ س وقت ایک طرفہ ٹریفک بھی اپنی پوری روانی کیساتھ نہیں چل پاتا ہے۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ہی ایک سروے کے مطابق حیدرآباد کے 70%گھروں میں ایک اور ایک سے زائد موٹرسائیکلیں موجود ہیں اور اسی طرح بڑی گاڑیوں کا حال ہے اور اگر فٹ پاتھ پر چلنے کی بات کریں تو ناجائز تجاوزات اور ناجائز پارکنگ کے باعث یہ جگہیں پہلے سے بُک ہوئی نظر آتی ہیں۔کیو نکہ 1998سے لیکر اب تک کو ئی سروے نہیں کیا گیا ہے اس لیے آبادی کا تناسب اسی پیرائے اوراندازوں میں لگایا جاسکتا ہے۔

حیدرآباد میں پہلی مردم شماری 1872ء میں انگریزوں کے دور میں کرائی گئی تھی ، جب یہاں کی آبادی صرف 45000پر مشتمل تھی جو قلعہ اور اس کے ملحقہ حصوں میں آباد تھے۔پھر 1901ء میں 69400،1941ء میں 135000پھر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ پاکستان وجود میں آیاتوقیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار یہاں 1951ء میں مردم شماری گوشواروں کے مطابق تقریباً آبادی241000 سے بھی تجاوز کر گئی۔ 1947 کے بعد بہت زیادہ پیمانے پر آبادی نے حیدرآباد کا رخُ کیاجس کے باعث بہت سے مسائل بھی درپیش ہوئے تاہم وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔اسی طرح سن2000ء میں آبادی 1375000کے لگ بھگ تھی۔ حیدرآباد کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اب 2015ء میں ایک نجی سروے کے مطابق آبادی 2405000 تک جاپہنچی ہے۔ جبکہ ضلع حیدرآباد کی آبادی تقریباً 4000000 سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں ہوسڑی، ٹنڈ وجام ،مٹیاری ،و دیگر علاقے شامل ہیں۔ لیکن اب 2017میں حکومتِ وقت نے مردم شماری کا بیڑہ اٹھایا ہے لیکن سندھ حکومت کے کرتا دھرتانا جانے کون سی دوائی کھاکر سو رہے ہیں کہ آج بھی سو سال پرانے گھِسے پٹِے طریقے سے نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ابھی تک کسی جماعت نے حیدرآباد کے لیے کوئی جامع پلان پیش نہیں کیا جو حیدرآباد اور اسکے رہائشیوں کے لیے بہتر ثابت ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے