دیسی سیاست اورایک پرانابدیسی خط

قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا ۔مسلم لیگ کے رہنما جاوید لطیف اسمبلی میں ’’گل افشانی ‘‘ کر رہے تھے ۔انھوں نے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور مراد سعید کو اپنے سینگوں پر رکھ لیا،انہوں نے مبینہ طور پر عمران خان کو غدار کہا اور مراد سعید کو ماں بہن کی گالیاں دی ،مسلم لیگ(ن) کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جب وہ مشکل میں ہوتے ہیں تو ’’گوڈے ‘‘ اور جب طاقت میں ہوتے ہیں تو گلا پکڑتے ہیں ،کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی حرکات و سکنات اس کی تربیت کی عکاسی کرتی ہیں،اس حوالے سے (ن) لیگ کی روایات شاندار نہیں ،نوے کی دہائی میں میاں برادران کے کہنے پر بی بی شہید کے خلاف ہیلی کاپٹر سے اشتہارات گرائے گئے جنہیں میاں صاحب کے گھر والے بھی دیکھتے تو شرم سے ان کے سر جھک جاتے ۔

لیگی قیادت کہتی ہے کہ سیاست میں گالیوں کا کلچر تحریک انصاف نے متعارف کرایا،ماضی میں جب شیخ رشید بھرے جلسوں میں محترمہ بی بی شہید کے خلاف ناریبا الفاظ کہا کرتے تھے تو وہ اس وقت میاں صاحب کی آنکھوں کے تارے ،راج دلارے اور پیارے ہو ا کرتے تھے۔کل کی بات ہے کہ منتخب صدر کو لاہور ،پشاور اور لاڑکانہ کی گلیوں میں گھسیٹنے اور زر بابا اور چالیس چوروں کا لقب دینے والے تحریک انصاف کے رہنما نہیں بلکہ میاں نواز شریف کے چہیتے بھائی شہباز شریف تھے ۔سیاست تو برداشت کا نام ہے،سیاست دوسروں کی رائے کے احترام اور دلیل سے اختلاف کا درس دیتی ہے ،ہمارے ہاں سیاست کا چلن ہی نرالا ہے ،کپتان ،میاں صاحب کو بھرے جلسوں میں چور کہتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ چور کو چور نہ کہوں تو کیا کہوں ،منتخب وزیر اعظم کو کسی بھی ادارے نے چور ڈکلئیرڈ نہیں کیا ،کپتان کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے انہیں یہ باتیں نہیں کہنا چاہیں ،ہم چونکہ ہر معاملے میں مغرب کی تقلید کرتے ہیں ،تو ہمارے سیاست دانو ں کو ابراہام لنکن کا وہ خط ضرور پڑھنا چاہیئے جو انہوں نے بحثیت صدراپنے بیٹے کے استاد کو لکھا وہ لکھتا ہے کہ:

قابل احترام استاد صاحب! مجھے پتہ ہے کہ میرا بیٹا یہ تو جان جائے گا کہ تمام انسان انصاف پسند نہیں ہوتے اور تمام انسان سچے بھی نہیں ہوتے ،پھر آپ اسے سکھلائیں کہ جیسے ہر لچے لفنگے کے مقابل ایک نیک صفت بہادر شخص ہوتا ہے بالکل ایسے ہی لالچی سیاست دان کے ،مقابلے میں ایک بے لوث رہنما بھی ضرور پیدا ہوتا ہے ۔اسے سکھادیں کہ دشمن کے مقابلے میں ایک دوست بھی ہوتا ہے اگرچہ یہ سیکھنے میں اسے وقت لگے گا اسے یہ بھی بتا دیں کہ خون پسینے سے کمایا گیا ایک ڈالر پانچ ڈالروں سے زیادہ قیمتی ہے جو مفت میں مل جائیں ،اسے ہار برداشت کرنا اور جیت کا جشن منا نا بھی سکھائیں اسے سکھائیے گا کہ ظالموں کو ہرانا نہایت آسان ہوتا ہے ۔

لائق صد احترام ستاد صاحب! اسے کتابوں کی قدر و قیمت سے بھی آگاہ کیجئے گا ،اسے سمجھائیے کہ خاموشی سے آسمان کی طرف اڑنے والے پرندوں ،سورج سے لطف اندوز ہونے والی مکھیوں اورسبز پہاڑوں پر اگے ہوئے پھولوں کے لافانی بھیدوں پر بھی غور کرے سکول میں اسے سکھائیے کہ نقل کرنے سے فیل ہونا زیادہ قابل عزت ہوتا ہے اس پر یہ باور کرائیے کہ انسان کو اپنے آئیڈیاز پر اعتبار ہونا چاہیئے ،قطع نظر اس بات کہ ہر کوئی اسے یہ کہے کہ وہ غلط ہے اسے بتا دیں کہ وہ نرم اور شائستہ لوگوں سے نرمی اور شائستگی کا مظاہرہ کرے اور سخت گیر لوگوں سے سختی سے پیش آئے ،اسے یہ بھی بتایئے کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دلیل سے دے ۔

گرامی قدر استاد صاحب !میرے بیٹے کو یہ قوت عطا کریں کہ وہ ہجوم کے پیچھے نہ چلے اسے یہ بھی بتائیے کہ وہ سب کی سنے پر ان کو کھنگالنے کے بعد عمل اس بات پر کرے کہ جو سچائی کی کسوٹی پر پورا اترتا ہو اسے سکھا دیں کہ غم کی حالت میں کیسے جیا جاتا ہے اسے یہ بھی بتا دیں کہ آنسو بہانے میں کوئی شرم نہیں ،اسے نکتہ چینوں کو دھتکارنے کا طریقہ بتا دیں اور خوشامدیوں سے خبردار کریں اسے کہہ دیں کہ اپنی طاقت اور دماغ کو زیادہ سے زیادہ بولی دینی والے کے ہاتھ فروخت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں پر وہ کبھی اپنے دل و دماغ پر کسی کوبولی لگانے کی اجازت نہ دے ،اسے سکھایئے کہ وہ شور مچانے والے ہجوم پر کان تو ضرور دے مگر وہ اس سے مقابلہ کرے اگر وہ یہ سمجھے کہ وہ راہ حق پر ہے ۔

استاد محترم! آپ بے شک اس سے نرمی سے پیش آئیے گا اسے کے زیادہ لاڈ مت اٹھایئے گا کیونکہ آگ کی بھٹی سے ہی گزر کر ہی کندھن بنتا ہے۔
یہ خط ایک سپر پاور ملک امریکہ کے صدر کا اپنے بیٹے کے نام تھا ،مگر حیرانگی یہ ہوتی ہے کہ اتنے طاقت ور ملک صدر اپنے بیٹے کو طاقت کے استعمال کی تربیت نہیں دیتا ،وہ اپنے بیٹے کو یہ نہیں سکھاتا کہ سیاسی میدانوں میں اپنے حریفوں کی پگڑیاں کیسے اچھالنی ہیں ،وہ اپنے بیٹے کو یہ بھی نہیں سکھاتا کہ دولت کے انبار کیسے لگائے جاتے ہیں ۔وہ تو اپنے بیٹے کو یہ سکھانا بھی بھول گیا کہ اس کے جانے کے بعد اس کی دولت اور جائیداد کی منصفانہ تقسیم کیسے کرنی ہے اور کیسے اس دولت جائیداد سے دنیا کے اندر بزنس ایمپائر کھڑے کرنے ہیں اسے یہ بھی فکر نہیں ہوتی کہ میرے مرنے کے بعد میرا بیٹا بادشاہ بنے ۔عجب بات ہے اسے اپنے بیٹے کو سیاست سے زیادہ انسانیت سکھاتا ہے ۔

اب اگر پاکستانی سیاست کی بات کی جائے تو ہمارے رول ماڈل ہمارے اسلاف ہونے چاہییں لیکن کیا کریں ہم چونکہ مغرب کی تقلید کر رہے ہیں ،مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسلامی طور طریقوں اور اسلامی تہذیب کو تو ہمارے سیاست دانوں نے پہلے ہی پیچھے چھوڑ دیا اور خود پر مغرب کی پیروکاری کا لیبل لگوا لیا مگر ابراہام لنکن کا یہ خط پڑھوتو مغربی تہذیب کے اثرات کی چھاپ بھی ہمیں سیاستدانوں پر کم ہی نظر آرہی ہے ۔اور اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کونسی نئی تہذیب ہے جس میں اپنے اہل و عیال کو ملکی خزانے لوٹنے اور طاقت کے ایوانوں میں چور دروازوں سے داخل ہونے کے گر سکھائے جاتے ہیں ہمارے ہاں بچوں کو انسانیت سے پہلے سیا ست اور سیاست سے پہلے منافقت سکھائی جاتی ہے ۔یہ کونسی تہذیب ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے