فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع بدقسمتی ہے، رضا ربانی

اسلام آباد: سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے سیاسی جماعتوں کے درمیان فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ معاملہ 2019 سے بھی آگے تک جاسکتا ہے۔

سینیٹ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ 2015 میں فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق 2 بل پاس کیے گئے تھے، مگر 2 سال بعد ملک واپس گھوم پھر کر وہیں آگیا جہاں پہلے کھڑا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کمیٹی نے فوجی عدالتوں سے متعلق آرمی ایکٹ 2015 کے ختم ہونے سے قبل بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیے تھے اور اس حوالے سے آئینی ترمیمی ایکٹ بل 2015 بھی متفقہ طور پر 18 جنوری 2016 کو پاس کیا گیا تھا، مگر افسوس کے ان اقدامات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پاس کیے گئے بلز کو ورکنگ پیپرز کے طور پر استعمال کیا جاتا تو آج پیدا ہونے والی صورتحال سے بچا جاسکتا تھا۔

سینیٹ چیئرمین کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان فوجی عدالتوں کے معاملے پر پتہ نہیں کیا کریں گے، لیکن انہیں امید ہے کہ اب عدالتوں کی مدت پہلے کی طرح 2 سال نہیں ہوگی۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’انہیں اس حوالے سے ہونے والے فیصلوں سے مایوسی ہوئی‘۔

سینیٹ چیئرمین رضا ربانی شروع سے ہی فوجی عدالتوں کے مخالف رہے ہیں اور 7 جنوری 2015 کو فوجی عدالتوں سے متعلق 21 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد انہوں نے آبدیدہ لہجے میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے زندگی میں اس سے پہلے اتنی شرمساری محسوس نہیں کی، وہ 12 سال سے سینیٹ میں ہیں، مگر اپنے ضمیر کے خلاف ووٹنگ پر جو شرمندگی وہ آج محسوس کر رہے ہیں وہ پہلے کبھی نہیں کی۔

سینیٹ چیئرمین کے ریمارکس کے جواب میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں کسی بھی سیاسی پارٹی کی ترجیح نہیں ہیں، مگر یہ فیصلہ ملک میں امن و امان کی عجیب صورتحال کے پیش نظر کیا گیا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ فوجی عدالتوں سے متعلق قانون سازی والے دن رضا ربانی ایوان میں موجود ہوں گے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت ملک کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور ’ضرب عضب‘ کے بعد آپریشن ’ردالفساد ‘ شروع کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حکومت کی یقین دہانی پر فوجی عدالتوں کے 2 سالہ قیام اور قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل کے لیے زہر کا گھونٹ پیا تھا۔

اس معاملے سے ہٹ کر حال ہی میں حکومت کی جانب سے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کے لیے اعلان کردہ اصلاحات پیکیج کے تحت پیپلز پارٹی نے مجوزہ رواج ایکٹ اور قبائلی علاقوں میں بلدیاتی نظام کے قیام کو نافذ کرنے یا صدر کی جانب سے دستخط کرنے سے قبل انہیں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے قبائلی علاقوں میں نافذ فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کی جگہ رواج ایکٹ اور ایل ایل بی قوانین کو عوام اور پارلیمنٹ سے خفیہ رکھنے سے سنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر رواج ایکٹ انسانی حقوق مخالف قانون ہوا تو یہ ایف سی آر سے بھی زیادہ تباہ کن قدم ثابت ہوگا۔

فرحت اللہ بابر کے مطابق صدر کو صرف بیورو کریسی کی سفارش پر پارلیمنٹ میں ان قوانین پر بحث کیے بغیر دستخط نہیں کرنے چاہئیں، جب کہ پارلیمنٹ کو قبائلی علاقوں میں بلدیاتی حکومت کے قیام سے متعلق ایک بورڈ بھی تشکیل دینا چاہئیے، جو لوکل باڈیز کے اختیارات اور ذمہ داریوں، انتخابات کے طریقہ کار اور تمام علاقوں میں بیک وقت یا علیحدہ علیحدہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اصول تیار کرے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کی جانب سے اصلاحات پیکیج کے تحت فاٹا تک اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات کو بڑھانے کے وعدے سے متعلق بھی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت کی خاموشی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے اور حکومت کی جانب سے اصلاحات پیکجز کے ذریعے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے بجائے ‘پبلسٹی اسٹنٹ’ کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے