​ڈاروِن کی طرح” ڈارتھیوری ”بھی ناکام !

ڈارون ایک مغربی سائنس دان تھا ،یوں تو اس نے کئی نظریات اور تھیوریاں پیش کیں،لیکن جس تھیوری کی وجہ سے اس کا نام اب تک زندہ ہے وہ اس کانظریہ ارتقاء ہے ،جو ڈارون تھیوری ہی کے نام سے مشہور ہے۔اس کا لب لباب یہ ہے کہ انسان ارتقائی عمل کے نتیجے میں موجودہ شکل کو پہنچا ہے ،یہ پہلے بندر تھا،یہی حال دوسرے حیوانات کا بھی ہے ،کہ یہ ان کی موجودہ شکلیں ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔اس تھیوری کوابتدا میں کافی پذیرائی ملی،لیکن سائنس نے جوں جوں ترقی کے افق طے کیے ،ا س کے اس نظریے کا بودا پن سامنے آیااور خود چوٹی کے مغربی سائنس دانوں نے اس کو محض ایک غلط مفروضہ قرار دیا، ایک اطالوی سائنسدان روزا کہتا ہے: گذشتہ ساٹھ سال کے تجربات نظریہ ڈارون کو باطل قرار دے چکے ہیں،دوسرا مغربی سائنس دان فرحو کہتا ہے: انسان اور بندر میں بہت فرق ہے اور یہ کہنا لغو ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے،میفرٹ کہتا ہے: ڈارون تھیوری بچوںکی باتوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی،آغا سیز کہتا ہے :ڈارون کا مذہب سائنسی لحاظ سے بالکل غلط اور بے اصل ہے،ٹنڈل کہتا ہے کہ نظریہ ڈارون قطعا ًناقابل التفات ہے(بحوالہ :تخلیق کائنات اور جدید سائنس)

ان چند اقوال سے یہ اندازہ لگانا کچھ بھی مشکل نہیں کہ ڈارون تھیوری محض ایک فلسفیانہ موشگافی ہے،ایک بچکانہ خیال ہے،ایک ایجاد بندہ مفروضہ ہے اور ایک ایسا دعویٰ ہے ،جو آفاقی سچائیوں کی میزان پر پورا نہیں اتر تا اور اس کی تصدیق وتاییدپر برسہا برس کے طرح طرح کے تجربات کے بعد بھی سائنس داں تیار نہیں ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہر نظریے کے تایید کنندگان ہر طبقے سے مل جاتے ہیں ،کچھ لا علمی میں ،کچھ خوش اعتقادی میں اور کچھ مفادات کے لالچ میں ،تایید کردیتے ہیں ،جیسا کہ دور حاضر میں سیکولرزم اور لبرلزم ،جس کا ماٹو ہی مذہب سے فرار ہے،کو مشرف بہ اسلام قرار دینے کے لیے دا د تحقیق دینے والوں کی کمی نہیں ،اسی طرح ڈارون کی تایید بھی حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں سزا کے طور پر بندر بنائے جانے والے ”اصحاب السبت”کے واقعے سے لانے کی کوششیں کی گئیں ،حالاں کہ حدیث میں صاف مذکور ہے کہ جن لوگوں کی شکل عذاب کے طور پر مسخ کی گئی تھی و ہ فقط تین ہی دن زندہ رہے ،پھر مر گئے تھے۔

آمدم بر سر مطلب،ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر کم زور سے کم زور بات کی تایید کرنے والے مل ہی جاتے ہیں۔ہمیں ڈارون تھیوری یوں یاد آئی کہ حال ہی میں قاری محمد حنیف ”ڈار”صاحب نے ”وِن”ہونے کے لیے اسی نوع کی ایک تھیوری پیش کی جس کا حاصل یہ تھا کہ ”ملحدڈاٹ کام ”سمیت کئی گستاخانہ ویب سائٹس چلانے والا ملحدین کا سرغنہ ”علامہ”عبدالوحید المعروف ایاز نظامی نہ صرف ایک مولوی ہے ،بلکہ دس سال تدریس سے بھی وابستہ رہ چکاہے ،ایک واقعے میں اپنے اکلوتے بیٹے کی ہلاکت کے بعد مذہب سے متنفر ہوگیا۔ڈار صاحب کی تھیوری یقیناً قارئین کے علم میں ہوگی،اس لیے اس کو بیان کرنا محض وقت کا ضیاع ہوگا۔

ڈارصاحب کی اس تھیوری کی ٹائمنگ بھی بڑی اہم ہے ،موصوف نے یہ تھیوری ایک ایسے وقت میں پیش کی ،جب امت مسلمہ بالخصوص اہالیان پاکستان گستاخانِ رسول کے خلاف یک جان دو قالب بن چکے ہیں ،انھوں نے ہر قسم کے دینی و مسلکی اختلافات کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے اور ”محمود وایاز ”ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور سب کا ایک ہی مطالبہ ہے :گستاخ رسول کوئی بھی ہو،اس کی ایک ہی سز اہے کہ اس کا سر ،تن سے جد اکردیا جائے۔گزشتہ تین عشروں کے منظر نامے کو ذہن میں تازہ کریں ،پہلے حکومت اور لبرل وسیکولر لابی ان گستاخوں کو گستاخ ماننے کے لیے ہی تیار نہ تھی اور ان کی ”لن ترانیوں”کو ”آزادی اظہار ِ رائے”کی چھتری فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ،پھر ان کے فرار اور پیجز کی بندش پر یہ لابی سراپا احتجاج بھی بنی ،یہ تو اللہ بھلا کرے مولانا محمد عبدالعزیز غازی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا،کہ انھوں نے اس ایشو کو دوبارہ اٹھایا اور قوم کو بیدار کیا،یہ اسی بیداری کا نتیجہ تھا کہ وزیر اعظم نے وزارتِ داخلہ کو فوری اقدام کی ہدایت کردی ،مسلم ممالک کے سفرأ کو اس مسئلے میں اکٹھا گیا گیا ،فیس بک کو تعاون کرنے پر مجبور کیا گیا اور اللہ کرے!یہ خبر درست ہو کہ فیس بک سے 85فیصد گستاخانہ مواد کی تطہیر ہوچکی ہے اور ان کے سرغنہ ایاز نظامی اور نعمان نامی شخص کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔آپ نے منظر نامہ ملاحظہ فرمالیا۔اب ڈارصاحب کی تھیوری کے پس پردہ عزائم آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔

برا ہو مسلکی ودینی تعصب کا،ان عناصر کو تو کویا کام یابی کی کلید ہاتھ لگی ،ڈارتھیوری پر انھوں نے فرقہ وارانہ تعصب و انتشار کی وہ وہ عمارتیں کھڑی کیں ،کہ توبہ ہی بھلی۔مدارس کی مخالفت اور وہ بھی دیوبند مدارس کی مخالفت میں دلیل کا ہاتھ لگ جانا تو غنیمت ِ باردہ ہوتا ہے ،ایک نسبتاًمحتاط کالم نگار نے لکھا: پہلے ایک خاص مسلک کے مدرسوں پر دہشتگردی اور انتہا پسندی میں ملوث ہونے کا الزام لگتا تھا اور اب مدارس ہی سے فارغ التحصیل علما الحاد کے بھی سرغنہ کے طور پر سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ انھوں نے ایک ہی سانس میں اقبال کی زبان سے اس دور کے ملا کو ” ننگ مسلمانی”بھی قرار دے ڈالا۔ایک اور ویب سائٹ نے لکھا: پاکستان میں موجود ملحدین کی بڑی تعداد، مختلف مسلکی مدارس کے مولوی صاحبان پر مشتمل ہے۔ ملحدین کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ فلاں مدرسہ کے فاضل ہیں۔شاید اِنہی وجوہات کے پیش نظر ایک پاکستانی سیاستدان نے بعض مدارس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں جہالت کی فیکٹریاں گردانا تھا۔ایک اور ویب سائٹ کا تبصرہ ہے:دیوبند مدارس سے پہلے مذہبی انتہا پسندی اور تکفیر جیسے رویے جنم لیتے تھے، اب معلوم ہوا ہے کہ جدید الحاد کا مرکز بھی یہی مدارس ہیں۔

ملاحطہ فرمایا آپ نے،کہاں کہاں کی کڑیاں ملا کر مسلکی تعصب کا الاؤ روشن کیا جارہا ہے۔نیشنل ایکشن پلان اور سائبر کرائم بل جانے کس گوشہ ٔ عافیت میں محوِ استراحت ہیں ! اس نازک موقع پر اس قسم کی موشگافیوں سے پر ہیز کیا جانا چاہیے۔جامعہ بنوری ٹاؤن کے نائب مہتمم مولانا سید سلیمان ندوی کی اس وضاحت کے بعد ،کہ اس نام کا کوئی طالب علم ہمارے ہاں کبھی بھی زیرِ تعلیم نہیں رہا،یہ سلسلہ اب رک جانا چاہیے،شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکنا دانش مندی نہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے