وہ طِفل کیاگرے گا جوگھٹنوں کے بل چلے

ہمارے ہاں اُردو زُبان کا جو معیار ہے وہ کسی سے پنہاں نہیں۔چوں کہ ہم لوگ تحقیق اور پرکھ کے عادی نہیں ، سنی سنائی بات کوہی حرفِ آ خر سمجھ لیتے ہیں ۔ جب کوئی ہماری اصلاح کرتا ہے تو استعجابہ انداز میں تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اردو زبان میں عدم دِل چسپی کا اور تحقیق سے غفلت کاہمارا یہ رویہّ ہی ہمارے اکثر زبان زدِ عام اور ضرب المَثل اشعار کی غلطی کا بہ موجب بنتا ہے۔وہ اشعار جو عام طور پر غلّط ترکیب سے مشہور ہو چکے ہیں میر ا ہمیشہ مقصد رہا ہے ایسے اشعار کی صحت کا خیال رکھ کر شاعر کے نام کے ساتھ آگے مُنتقَل کیے جائیں۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے موبائل میسیج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔میرے دوستو ں کی مَحبت اور حوصلہ ہمیشہ میرے کام آتا ہے۔میں نے اپنے اسی سلسلے کا ایک شعر گذشتہ دنو ں جب اِرسال کیا ۔

ع عمرِ دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

جو کہ سیماب ؔ اکبر آبادی کا شعر ہے اور بہادر شاہ ظفرؔ کے نام سے غلط منسوب ہو چکا ہے۔ کہوٹہ سے میرے ایک عزیز عابدتیمور ہاشمی نے اس پر اعتراض اٹھایا کہ یہ بہادر شاہ ظفرؔ کا شعر ہے ۔جس پر میں نے ان کو مطمئن کرنے کے لیے ’’کلیمِ عجم‘‘ کا حوالہ دیا جو سیمابؔ کا شعری مجموعہ ہے، جس پر ناچار انھیں تسلیم کرنا پڑا کہ یہ سیمابؔ اکبر آبادی کا شعر ہے نہ کہ بہادر شاہ ظفرؔ کا۔ آج میں نے جب ایک اور شعر بھیجا جس کی ترکیب یک سر بدلی ہوئی ہے تو ہاشمی صاحب نے ایک مرتبہ پھر اعتراض اُٹھایا۔ شعراس قدر مقبول اور زبان زدِ عام ہے کہ ہر خاص و عام نے سُنا ہی ہو گا۔جی ہا ں میں بات کر رہا ہو مرزا عظیم بیگ عظیم ؔ کے شعر :

؂ شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مِثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

اس شعر کو موصول کرنے کے بعد جناب تیمور ہاشمی کا جواب آیا کہ کیایہ شعر عظیم بیگ عظیم ؔ کا ہے؟میں نے اثبات میں جواب دیا تو کہنے لگے کہ شعر کی ترکیب تو ایسے ہے:

؂ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

میں نے اس بات کی نفی کر دی اور ان کی غلطی دور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی اور جانب نکل گئے۔عابد تیمور ہاشمی صاحب ایک صاحبِ علم شخصیت کے مالک ہیں۔طویل مدت سے کہوٹہ میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔آپ کے شاگردوں کی تعدادبھی قابل ذکر ہے۔ اسلامک انٹر نیشنل یونی ورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اردو کے اسکالر عابد تیمور ہاشمی ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔آپ نے جب اعتراض اُٹھایا تو میں نے محمد شمس الحق کی کتاب ’’ضرب المَثل اشعار‘‘ کا مکمل حوالہ دیا لیکن ان کے مطابق ’’ مجموعۂ نغز‘‘ میں یہ شعر مذکورہ صورت میں ہے ۔ یہ کتاب کب اور کہاں سے شائع ہوئی اور کس کی تصنیف ہے؟ اس متعلق انھیں کچھ پتا نہیں۔

میں نے جب مجموعۂ نغز از قدرت اللہ قاسم کو تلاشا تو اس کی جلد دوم میں مجھے مرزا عظیم بیگ عظیم ؔ کا یہ مخمس درست صورت میں ملا جس سے بھی عابد تیمور ہاشمی کی بات غلط ثابت ہوئی۔ الغرَض ہماری بحث ان کے اس جملے پر جو ہاشمی صاحب کے اس جملے پر ختم ہوئی’’جیسے آپ کی مرضی‘‘ شاید وہ بھانپ گئے تھے کہ وہ غلطی پر ہیں لیکن اپنی انا کو مجروح کرنا نہ چاہتے تھے۔ خیر مرزاعظیم بیگ عظیم ؔ کے بارے بتا تا چلوں کہ وہ اٹھارویں صدی کے آغاز میں دہلی میں پیدا ہوئے۔شاہ حاتمؔ اور مرزا رفیع الدین سوداؔ کے پاس تلمیذ ہوئے۔

عظیم ؔ کی وجۂ شہرت انشااللہ خان انشاؔ سے ادبی مناقشہ ہے۔۱۸۰۷ ؁ء میں وفات پانے والے عظیم بیگ عظیمؔ کا زیرِ بحث شعر بھی اسی مناقشے کا حاصل ہے۔آبِ حیات از مولانا محمد حسین آزادؔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ اک روز مرزاعظیم بیگ ،انشاؔ کے والد میر ماشاء اللہ خان کے پاس بہ غرَضِ اِصلاح ایک غزل لے کر آئے ۔غزل بحرِ رجز میں تھی لیکن مرزا عظیم ؔ کی ناآشنائی کے باعث کچھ اشعار بحرِ رمل میں بھی کہہ گئے۔اس وقت سیّد انشاؔ بھی پا س موجود تھے غزل دیکھ کر فوراً بھانپ گئے کہ کچھ اشعار رمل میں ہیں۔ غزل کی بہت تعریف کی اور اِصرار کیا کہ اس غزل کو مشاعرے میں ضرور سنائیں۔میر ماشاء اللہ خان نے بھی خاموشی اختیار کی جب کہ مرزاعظیم بیگ عظیمؔ نے انجام سے بے خبر عام مشاعرے میں جب یہ غزل سنائی تو تاک میں بیٹھے انشاؔ نے اُسی وقت تقطیع کی فرمائش کر ڈالی۔ناچار تقطیع کی گئی تو کچھ اشعار بحرِ رمل کے نکل آئے۔انشا نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسی وقت ایک مخمس پڑھا جو کچھ یوں تھا۔

گر توُمشاعرے میں صبا آج کل چلے
کہیوعظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے
اتنا بھی حد سے اپنی باہَر نہ نِکل چلے
پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے
بحرِ رجز میں ڈال کر بحرِ رمل چلے

اس مخمس کو سُن کر مرزا عظیم بیگ انتہائی شرمسار ہوئے ۔فی البدیہہ تو کچھ نہ کہہ پائے البتہ گھر پہنچتے ہی دِل کا غبار کچھ اشعار کی صورت نکالا جن میں سے چند یوں ہیں:

وہ فاضلِ زمانہ ہو تم جامع علوم
تحصیلِ صرف و نحو سے جن کی مچی ہے دھوم
رمل و ریاضی، حکمت وہئت،جفر،نجوم
منطق،بیاں،معانی،کہیں سب زمیں کو چوم
تیری زباں کے آگے نہ دہقاں کا ، ہَل چلے
موزونی و معانی میں پایا نہ تم نے فرق
تبدیلِ بحر سے ہوئے بحرِ خوشی میں غرق
روشن ہے مِثلِ مہر یہ از غرب تا بہ شرق
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مِثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے

انہی اشعار کے آخری دو مصرعے ایک شعر کی صورت اِختیار کر کے ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئے۔لیکن افسوس کہ غلّط مقبول ہوئے اس پر حد یہ کہ پہلا مصرع یک سر تبدیل کر دیا گیا یہ غلطی کب اور کہاں سے شروع ہوئی ہو گی ؟اس بارے کچھ بھی کہنا محال ہے۔ شاید کسی نے اپنی سہولت کے پیشِ نظر اس کو بدلا ہو اور وہاں سے غلطی ہوئی ہو۔ ہمارے میڈیا کے اندر فلم یا کسی ڈرامے میں جب کوئی بھی شعر استعما ل کیا جاتا ہے تو اس کی صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غلط ہی عام لوگوں کے نزدیک درست ہوتا ہے۔ جیسا کہ جگر ؔ مراد آبادی اس شعر:

؂ یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

کے مصرع اولیٰ کو ’’ یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے‘‘ سے بدل دیا گیا اور ایسے ہی مقبول بھی ہو گیا ، یا میر طاہر ؔ علی رضوی کے شعر:

؂ مکتبِ عشق کا دستو رنرالا دیکھا
اُس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے

کے مصرع ثانی کو ’’ اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد رہا‘‘ سے بدل دیا گیا

اس تبدیلی کی میرے نزدیک ایک وجہ وہ طرحی مشاعرے بھی ہو سکتے ہیں جن میں مصرع طرح پر جب گرہ لگائی جاتی تھی تو وہ مشہور و معروف ہو جاتی تھی جب کہ اصل مصرع کہیں پس منظر میں چلا جاتا تھا ۔ یہی غلطی نسل در نسل چلی جاتی ہے اور لوگ غلط کو ہی درست سمجھتے ہوئے لکھتے اور پڑھتے ہیں جو کہ اردو ادب کے ساتھ مذاق ہے ۔لہذا ان غلطیوں سے جہاں تک ممکن ہو گریز کرتے ہوئے درست شعر لکھنا اور پڑھنا چاہیے ۔زیرِ بحث شعر کی اصل حالت یوں ہے اور یوں ہی رکھی جائے۔

؂ شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مِثلِ برق
وہ طفل کیا گِرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے