امریکی ایجنٹ کون؟

ایک خبر کے مطابق پاکستان علماء کونسل کے سابق سیکرٹری جنرل زاہد محمود قاسمی نے امریکی قونصل جنرل کو بتایا کہ اہل سنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کروانے کے لیے لیبیا حکومت سے کچھ رقم وصول کی تھی۔زاہد قاسمی کی طرف سے دی گئی رپورٹ میں مولانا لدھیانوی اور انکی جماعت دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ زاہد محمود قاسمی نے یہ رپورٹ امریکی قونصل جنرل ڈی ہنٹ کو 18 مارچ 2009 کو ہونے والی ایک ملاقات میں فراہم کی تھی جبکہ امریکی قونصل جنرل نے اسے رپورٹ بنا کر 28 مارچ 2009 کو ایک کیبل کے ذریعے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو روانہ کیا تھا۔سات ہزار پانچ سو اٹھاسی الفاظ پر مشتمل اس رپورٹ میں امریکی قونصل جنرل نے زاہد محمود قاسمی کو اپنا تنخواہ دار ایجنٹ قرار دیا ہے ۔اس کام کی تربیت کے لیے زاہد محمود قاسمی کو امریکی سفارت خانہ کے لیڈرشپ پروگرام میں شامل کرکے امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا دورہ بھی کروایا گیا تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق آج سے چند سال قبل جب یہ خبر منظر عام پر آئی تھی تو زاہد قاسمی نے اپنا نام چھپاتے ہوئے بریلوی مسلک کے رہنما حامد رضا پر اس کا الزام تھوپ دیا تھا تاکہ وہ تنقید سے بچ جائیں۔وکی لیکس پر جاکے اس رپورٹ کا مکمل مطالعہ کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ رپورٹ کا اصل سور س خود زاہد قاسمی ہے جسے امریکی قونصل جنرل نے باقاعدہ تنخواہ دیکر پاکستان میں موجود علماء کی جاسوسی پر مقرر کیا تھا۔

ان دنوں اس خبر کو منظر عام پر لانے کا مقصد پاکستان علماء کونسل کے چیئر مین حافظ طاہر محمود اشرفی اور زاہد قاسمی کے مابین پائے جانے والے اختلاف کو وسعت دینے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایسی خبریں ڈھونڈ ڈھونڈ کرسامنے لائی جارہی ہیں جن میں خواہ مخواہ اکابر علماء کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اطلاعات کے مطابق اب یہ حملہ طاہر اشرفی کی طرف سے کیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل زاہد قاسمی کی طرف سے طاہر اشرفی پر حملے ہوتے رہے ہیں جنکی تردید امریکہ کی این جی او اور جرمنی کا سفارت خانہ بھی کرچکے ہیں۔

پاکستان میں غیرملکی این جی اوز کے ساتھ ملکر کام کرنا کسی صورت بھی غیر قانونی نہیں ہے۔پاکستان کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے اور یہاں سینکڑوں این جی اوز ایسی موجود ہیں جو غیرملکی اداروں کے تعاون سے کام کررہی ہیں۔اور تو اور یہ کام پاکستان میں موجود دینی مدارس کے بورڈز اور ان کے بعض عہدیدار بھی مدرسہ ریفارمز اور تعلیمی اصلاحات کے عنوان پرامریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ،یو ایس ایڈ، جرمنی،ناروے اور ڈنمارک کے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ غیر قانونی کام نہیں اور ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک میں اس طرح کے پارجیکٹ شروع کرواکے انہیں ترقی کی راہوں پر ڈالنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔ زاہد قاسمی کا جو کام ہمارے سامنے آیا ہے وہ ان سب کاموں سے مختلف ہے۔ امریکی اداروں میں حکومت پاکستان کی مرضی کے بغیر جاسوسی کی ملازمت اختیار کرنا آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔یہ ایک سنگین جرم ہے اور ریاست کو چاہیے کہ وہ ایسے ملزمان کو سامنے لائے اور ان کے اس بھیانک کردار کی انہیں سزا دے تاکہ آئندہ کسی کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ آئین پاکستان کی یوں دھجیاں اڑاتا پھرے۔2009 میں زاہد قاسمی طاہر اشرفی کے ساتھی تھے اور پاکستان علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل بھی تھے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کتنے باصلاحیت اور ہوشیار ہیں۔ انہوں زندگی بھر ہر وہ کام کیا جس کی طرف طاہر اشرفی نے رہنمائی کی۔ آج اس سے وہ اختلاف کیے بیٹھے ہیں تو یہ بھی اسی سے سیکھا ہے۔ حافظ طاہر اشرفی کی بھی یہ ذمہ داری ہے ۔

رہی یہ بات کہ مولانا لدھیانوی نے لیبیا سے پیسے لیے یا نہیں تو یہ ویسا ہی الزام ہے جیسے ان پر سعودیہ سے پیسے لینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ کرنل قذافی کی حکومت کسی حد تک پاکستان اور پاکستانی علماء سے محبت کرنے والی تھی، مگر لیبیا کی موجودہ حکومت تو امریکہ نواز ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ امریکی قونصل کی اس رپورٹ کی تصدیق کرے اور دستاویزات سامنے لے آئے تاکہ یہ بات ثابت ہو۔ شیعہ سنی فسادات تو ایک قبیح عمل ہے، یہ تو درکنار کسی نیک کام کے لیے بھی پاکستانی حکومت کی اجازت کے بغیر غیر ملکی فنڈ لینا جرم ہے۔اس مقدمہ کی تصدیق یا تردید اب زاہد قاسمی کے ذمہ ہے۔

یہ بات اب واضح ہوجانی چاہیے کہ امریکہ کا ایجنٹ کون ہے؟ طاہر اشرفی یا زاہد قاسمی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ تصویر کے دونوں رخ ایک جیسے ہوں اور ہم ایک رخ کو دوسرے سے بہترسمجھتے رہیں جبکہ وہ دوسرے سے کہیں زیادہ بھیانک ہو۔
[pullquote]
نوٹ: بلاگر کی رائے اور خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، کوئی صاحب مہذب اسلوب میں اس کا مدلل جواب دینا چاہیں تو آئی بی سی کے صفحات حاضر ہیں.[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے