بھٹو کی پھانسی!انصاف یا عدالتی قتل

ذوالفقار علی بھٹو کا کا دور اقتدار ہنگاموں،بحرانوں،تنازعات اور عدم اعتماد کے ابواب پر ایک طویل داستان ہے ۔انھوں نے دسمبر1971 ء میں اس وقت اقتدار سنبھالا جب پاکستان کو اپنی تاریخ کے شدید ترین بحران کا سامنا تھا ،پاکستان کا وجود پارہ پارہ ہو چکا تھا اس پر لگنے والے زخموں سے ابھی تک خون رس رہا تھا ۔بیرونی جارحیت کے نتیجے میں قوم کے حوصلے بڑی حد تک پست ہوچکے تھے۔ساری قوم کی نظریں ذوالفقار بھٹو پر لگی ہوئی تھی جو اس وقت قوم کے مسیحا کے طور پر سامنے آئے تھے ۔انہوں نے قوم کی امنگوں کے مطابق ایک بہترین منتظم،زیرک سیاست دان اورقائد کی حیثیت سے بھرپور سیاسی بصیرت کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا ۔انہوں نے اپنے تئیں ایک دم توڑتے ہوئے نظام کے وجود میں نئی روح پھونکنے کے لیئے بعض انقلابی اصلاحات کا اعلان کیا ۔مایوسی اور نا امیدی کے اندھیروں سے امید کی کرن پھوٹنے لگی ۔

ان کی خارجہ پالیسی اس حد تک کامیاب تھی کہ پاکستا ن کو بہت جلد قوموں کی عالمی برادری میں اس کا کھویا ہو ا اعزاز واپس مل گیا ۔یہی بھٹو کی صلاحیتوں کا معجزہ تھا کہ چین ،شمالی کوریا ،لیبیا اور شام پاکستان کے بہترین دوستوں کی صف میں شامل ہوگئے،1971 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد بھٹو اور پاکستان کے لیئے بہت بڑا اعزاز تھا ،بھٹو کی پوری توجہ خارجہ امور پر مرکوز تھی ،ہندوستان نے جب ایٹمی دھماکہ کیا تو ایک محب وطن سیاسی و قومی رہنما کی حیثیت سے ان کی یہ سوچ انتہائی مثبت تھی کہ پاکستان کا وجود برقرار رکھنے کے لیئے ایٹمی قوت کا حصول ناگزیر ہوگیا ہے ۔

اس حوالے سے کیئے گئے فیصلوں نے مغرب کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی انکل سام نے بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے لیئے سوت کی ہٹی پر بکنے والے لوگو ں کوخریدنا شروع کر دیا ،امریکہ بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں نے پوری طرح شامل ہوگیا ۔بھٹو کا تختہ الٹنے کی خاطر اپوزیشن کو بھرپور مالی اور سیاسی امداد فراہم کی۔۹ اگست ۶۷۹۱ کو امریکہ کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور میں بھٹوسے خصوصی ملاقات کی تاکہ پاکستان کو ایٹمی تکینک کے حصول اور فرانس سے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کے سودے سے روکا جا سکے ۔حالانکہ اس وقت پاکستان فرانس سے ایٹمی پلانٹ کے حصول کے لیئے باقاعدہ معاہدہ کر چکا تھا اور عالمی ایٹمی توانائی کو اس ضمن میں تمام تحفظات کی ضمانت دے چکا تھا اس ملاقات کے دوران کسنجر کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ بھٹو کا فیصلہ اٹل ہے اور وہ ہر حال میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا چاہتے ہیں۔

مسٹر کسنجر نے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے بھٹو سے کہا ’’مسٹربھٹو ہم تمیں ایک عبرت ناک مثال بنا دیں گئے ‘‘اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس نے ایک اور مثال دی ’’ مسٹر بھٹو جب سامنے سے ریل گاڑی آتی دکھائی دے تو عقل مند پٹڑی سے ہٹ جاتا ہے‘‘ بھٹو نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور کسنجر کو اپنا موقف منوائے بغیر واپس آنا پڑا۔یہی ملاقات بھٹو کے اقتدار کے زوال کا نقطہ آغاز تھی۔امریکہ نے فیصلہ کر لیا کہ بھٹو کو ہر صورت راستے سے ہٹایا جائے اور اسی مقصد کے لیے اس نے ’’شکاری کتے‘‘چھوڑ دیے ۔

امریکہ نے انتہائی چالاکی سے بعض بیوروکریٹ ،پاکستان پیپلزپارٹی کے بعض مرکزی عہدے داروں کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اپنے حلیفوں کی صف میں شامل کر لیا ۔ہمارے چند سیاست دان تو بھٹو دشمنی اور حصول اقتدار کی تگ و دو میں یہ تک بھول گئے تھے کہ یہود و نصاری کے ایجنٹ کبھی اسلام اور پاکستان کے دوست نہیں ہو سکتے ان کی’’ دوستیوں‘‘ سے صرف بھٹو کے زوال کے ڈرامے کے ابواب ہی مرتب ہو نہیں ہو رہے تھے بلکہ پوری پاکستانی قوم کی عزت نفس کے سودے بھی ہو رہے تھے ۔

امریکی سفارتکا ر بھٹو کے خلاف مہم میں نہ صرف ملوث تھے بلکہ اس کی مکمل نگرانی بھی کرتے تھے ۔لاہور میں امریکی قونصلیٹ جنرل کے پولیٹکل آفیسر جین این گہن کا کردار اس حوالے خاصا فعال تھا ۔کئی ایک مقامی رہنما اس کی بھرپور امداد کر رہے تھے اور مر کزی سطح کے سیاست دانوں سے مل کر وہ ایک سیاسی دلال کا کردار ادا کر رہے تھے ۔خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی اور شیراں والا گیٹ کے جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبید اللہ انور کے ساتھ جین نے مسلسل رابطوں کا اہتمام کر رکھا تھا ۔جین نے لاہور سے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے چیف آف پولیٹکل آفیسر ہاروڈ بی کو یہ پیغام دیا تھا کہ ’’پارٹی ختم ہوگئی مال لٹ گیا‘‘ جس کے جواب میں بھٹو نے یہ مشہور جملہ کہا تھا ’’پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی یاد رکھو ہاتھی کے کان بہت لمبے ہوتے ہیں‘‘

بھٹو کو بر طرف کرنے کا امریکی منصوبہ اس قدر مضبوط تھا کہ ۴ جولائی 1977 کو جب پی این اے اور پاکستان پیپلز پاڑٹی کے درمیان مذاکرات کا آخری دور ہوا اور دونوں جماعتیں ایک متفقہ سمجھوتے پر پہنچ گئی تو پی این اے کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان مفتی محمود،نواب زادہ نصراللہ اور پروفیسر غفور خان نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ مذکرات کامیاب ہوگئے ہیں مگر اس اعلان کے ساتھ ہی ائیر مارشل اصغر خان،پیر پگارو ،بیگم نسیم ولی خان اور مولانا نورانی نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ان لوگوں کی ڈور کس کے ہاتھ میں اور کون اس ڈور کے دوسرے سرے پر بیٹھا اپنی خواہش کے مطابق اسے ہلا رہا تھا ؟

بھٹو کو نواب احمد خان کے قتل کے الزام میں پھنسا دیا گیا لاہور ہائیکورٹ نے بھٹو کو سزائے موت کا فیصلہ دیا سپریم کورٹ میں اس سزائے موت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر بحث ہورہی تھی ، بریگیڈئیرریٹائیر ترمذی اپنی کتاب’’حساس ادارے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ راولپنڈی کے راجہ بازار میں پرانے کپڑے فروخت کرنے والوں کی ایک فٹ پاتھ برینڈڈ مارکیٹ تھی ، جہاں اس وقت گاہکوں کا ہجوم تھا میں نے دوست سے آنکھوں ہی آنکھوں میں گفتکو کی اس نے ایک کاغذ ریڑھی پر رکھے ہوئے ایک کوٹ کی جیب میں ڈال دیا، میں نے فوری طور پر وہ کوٹ خریدا اور وہ پر چہ لے کر ایک فوٹو کاپی شاپ پر پہنچا ، اس کی فوٹو کاپی کروائی اور پرچہ ایک دوسری ریڑھی پر پڑے ایک کوٹ کی وساطت سے اسے واپس کر دیا ۔راستےمیں اس پیغام کو پڑھنے کی کوشش کی مگر صرف اتنا جان سکا کہ یہ واشنگٹن سے بھیجا ہوا ایک ٹیلی گرافک پیغام ہے دفتر آکر جب اس پیغام کو ڈی کوڈ کیا تو مجھے یہ پڑھ کر شدید حیرت ہوئی واشنگٹن سے پاکستان میں اپنے دفتر کو یہ ہدایت دی گئی کہ بھٹو کا پھانسی کے تختے تک پہنچانا یقینی بنایا جائے ، مجھے یقین ہو گیا کہ بھٹو کو ضرور پھانسی دی جائے گی ۔اگر بھٹو قانونی طور پر موت کی سزا کا حقدار ہوتا تو اس پیغام کی کوئی ضرورت نہ تھی یہ پیغام بھٹو کے عدالتی قتل کا حکم نامہ تھا ۔

پھانسی کی سزا کے بعد جیل سپرنڈنٹ یار محمد ،مجسٹریٹ بشیر احمد خان ،جیل ڈاکٹر صغیر حسین شاہ اور سکیورٹی بٹالین کمانڈر و سکیورٹی آفیسر لیفٹینینٹ کرنل رفیع الدین عدالتی احکامات پر عمل درامد کے لیئے بھٹو کے پاس جاتے ہیں ۔کرنل رفیع نے اپنی کتا ب بھٹو کے آخری ۳۲۳دن میں تحریر کیا جیل سپرنڈنٹ نے بھٹوکے سیل میں شام ۶ بجے ایک شحص کے ساتھ دورہ کیا جیل عہدیدار نے پی پی کے بانی کو فرش پر لیٹے ہوئے پایا تو اس نے بھٹو کی توجہ حاصل کرنے کے لیئے پہلے ان کا نام پکارااور پھر پھانسی کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا ۔

جیل سپرنڈنٹ کی بات سننے کے بعد پی پی بانی نے کہا کہ انہیں پھانسی کے احکامات سزا کے ۴۲ گھنٹے پہلے سنائے جانے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا انہوں نے زور دیا جب صبح ساڑھے گیارہ بجے وہ سب اپنی اہلیہ اور بیٹی سے ملے تو انہیں سزا کے دن یا وقت کے بارے میں معلوم نہیں تھا جس پر انہیں بتایا گیا کہ سزا کا مطلوبہ حکم نامہ جیلر کے پاس ہے،جیل سپرنڈنٹ نے بھٹو سے پوچھا کہ کیا وہ چند گھنٹے بعد دی جانی والی سزا سے پہلے اپنی وصیت لکھنا چاہتے ہیں تو انھوں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔لکھنے کے لیے سامان مہیا کیا گیا ۔اس کے بعد بھٹو نے کرنل رفیع سے بات کی ’’رفیع یہ ڈرامہ ہے کیا اسے اسٹیج کیا گیا ہے ؟اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملا ۔

رات ایک بج کر پینتس منٹ کے قریب حکام ٹیم سیل میں داخل ہوئی اور بھٹو کو بستر پر آرام کرتے ہوئے دیکھا حکام نے بھٹو سے پوچھا کہ وہ چل کر تختہ دار تک جانا چاہتے ہیں یا اسٹریچر پر ۔بھٹو کو اسٹریچر پر لٹا کر ، پھانسی کے پھندے تک پہنچایا گیا، جلاد تارا مسیح پہلے سے وہاں موجود تھا اس نے بھٹو کے کان میں سرگوشی کی اور پھندے پر لٹکا دیا ، اس طرح پاکستان اور عالم اسلام کا عظیم لیڈر عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھینٹ چڑھ گیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے