بھٹو ، کتاب اور راکھ میں چنگاری

اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی اور زمانے کی بات ہے کیونکہ ٹیلی وژن کی دنیا اتنی بدل گئی ہے لیکن یہ اتنی پرانی بات بھی نہیں جب میں ’’جیوکتاب‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار پروگرام کیا کرتا تھا۔ رسان سے کتابوں اور خاص طور پر ادب کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی۔ اس پروگرام کی ایک قسط میں ، میںنے سراج الحق میمن کا انٹرویو کیا تھا کہ جو سندھی اور انگریزی کے اسکالر تھے اور جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے تو وہ حکومت کےسندھی اخبار کے مدیر تھے۔ یوں وہ بھٹو کے کئی غیر ملکی دوروں میں ان کے ساتھ جاتے رہتے تھے۔ واقعہ جو سراج الحق میمن نے بیان کیا وہ یہ تھا کہ ایک یورپی ملک کے دورے میں وہ شہر کی ایک بڑی کتابوں کی دکان سے ایک کتاب خرید رہے تھے کہ کسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ یہ بھٹو تھے۔ انہوں نے وہ کتاب دیکھی جس کی سراج الحق میمن قیمت ادا کر رہے تھے اور خواہش ظاہر کی کہ اس کی ایک اور کاپی انہیں مل جائے لیکن اتفاق سے اس کتاب کی دوسری جلد اسٹاک میں نہیں تھی۔ سراج الحق میمن کے اصرار کے باوجود بھٹو نے اس کتاب کا تحفہ قبول نہیں کیا۔ پھر یہ ہوا کہ واپسی کے سفر میں جو شاید سات آٹھ گھنٹے کا تھا جب طیارہ فضا میں بلند ہو چکا تو بھٹو طیارے کے پچھلے حصے میں آئے اور انہوں نے سراج الحق میمن سے وہ کتاب پڑھنے کو مانگی۔ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترنے سے پہلے سراج الحق میمن کو اپنی کتاب واپس مل گئی اور انہوں نے بتایا کہ کتاب میں کئی جگہ حاشیے میں بھٹو نے اپنی رائے لکھ دی تھی۔ بالکل واضح تھا کہ وہ کتاب انہوں نے سفر کے دوران پوری پڑھ لی تھی۔ اب اگر کسی کے دل میں یہ تجسس پیدا ہو کہ وہ کتاب کونسی تھی تو یہ بھی میں بتا دوں۔ وہ دراصل نراد چودہری کی پہلی کتاب ’’آٹو بائیو گرافی آف این ان نون انڈین‘‘ یعنی ایک گمنام ہندوستانی کی خودنوشت اور ان دنوں اس کا کچھ چرچا بھی تھا۔

یہ کہانی جو میں نے آپ کو سنائی ہے تو اس کا ایک حوالہ تو بھٹوکی برسی ہے جو منگل کے دن منائی گئی۔ اس قومی المیے کو اب 38سال گزر چکے۔ بھٹو کے بارے میںبات کرنا گویا اسرار کے پردوں کو ہٹانا ہے اور مجھے ان کی ہنگامہ خیز زندگی سے گہری دلچسپی رہی ہے۔ میں نے اپنے انگریزی کے ایک کالم میں کچھ ایسی بات کہی تھی کہ بھٹو ہماری سیاست کے ملگجے لبادے میں ایک سرخ ڈوری کی مانند ہیں۔ پاکستان کا ہر نیا لیڈر بھٹو بننےکی تڑپ رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دو نام لئے بھی جا سکتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ بھٹو کی شخصیت محبت اور مخالفت کے انتہائی شدید جذبات سے عبارت ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاید عام لوگوں کی ان سے تعلق کی نوعیت تبدیل ہوتی رہی ہے۔ کرشمہ ساز لیڈروں کی پہچان ہی یہ ہے کہ لوگ ان سے ایک ذاتی تعلق محسوس کرتےہیں۔ ایک جذباتی رشتہ قائم کر لیتے ہیں۔ یہ جو 38سال گزرے ہیںتو ،یہ تو ایک طویل مدت ہے۔ آپ یہ سوچئے کہ پاکستان کی موجودہ آبادی کی نمایاں اکثریت پیدا ہی بھٹو کی پھانسی کے بعد ہوئی ہے ۔ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کہ جس کے وہ بانی تھے ان کی یاد اور ان کی سیاست کو زندہ رکھے گی لیکن آج کی پارٹی آصف زرداری کی پارٹی ہے اور لگتا یہ ہے کہ اس پارٹی کی انقلابی روح موقع پرستی کے اندھیرے میںکہیں کھو گئی ہے۔ یوں تو خود بھٹو نے اس جماعت کے انقلابی فلسفے سے انحراف کیا تھا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جو غیر معمولی غلبہ رہا ہے وہ سراسر بھٹو کی ذات کا سحرتھا اور عوام کی وہ شعلہ ساز بیداری جسے بھٹو کی سیاست نے جنم دیا تھا اب بھی راکھ میں چنگاری کی مانند کہیں کہیںزندہ ہے۔ اسی لئے بھٹو کو یاد کرنے اور اس کی زندگی کا موجودہ حالات کے تناظر میں تجزیہ کرنا جائز ہے۔ یہ کام اس لئے بہت مشکل ہو گیاہے کہ ہم اپنی تاریخ سے چھپتے پھرتےہیں اور ہماری نوجوان نسل کی سیاست سے کوئی گہری وابستگی نہیں ہے۔ بھٹو زندہ حافظے کی پہنچ سے نکلتا جا رہاہے۔

میں معذرت چاہتا ہوں کہ بھٹو کی سیاست اور اس کی ذات کے ذکر نے مجھے بھٹکا دیا ۔ میری بات تو ایک فضائی سفر کے دوران بھٹو کے مطالعے سے شروع ہوئی تھی۔ کہنا یہ ہے کہ کسی بڑے لیڈر کی ذہنی صلاحیت اوراس کی فکر کی وسعت قومی زندگی کو کس حد تک متاثر کرتی ہے۔ اب اگر ہم سیاست کے موجود ہ منظر نامے کو دیکھیں تو آپ کتنے ایسے لیڈروں کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں کہ جن کے بارے میں آپ کو یقین ہو کہ انہوں نے کئی سو نہیں بلکہ دس بیس کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور انہیں تاریخ، فلسفے اور سیاست کے فکری پہلوئوں سے آگاہی ہے میں جب بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کے بارے میں سوچتا ہوں تو چند سے تو ذاتی واقفیت ہے کہ وہ پڑھتے بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ جیسے اعتزاز احسن، رضا ربانی اور مشاہد حسین۔ البتہ یہ تاثر کبھی پیدا نہیں ہوتا کہ اجتماعی معنوں میں ہماری قیادت غور و فکر اور سنجیدہ تجزیے کی اہل ہے۔ ہاں، یہ فکری اور علمی پسماندگی شاید ہمارے معاشرے کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہے لیکن اگر کسی کو بھٹو بننا ہے تو اس کے لئے تو عام سطح سے کافی بلند ہونے کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک زمانے میں بھٹو کے مطالعے کے ذوق کے بارے میں جاننے کی کوشش بھی کی تھی ان کی ذاتی لائبریری سے کئی اندازے لگائے جاسکتے تھے مگر اس تک رسائی نہ تھی۔ نپولین کی شخصیت سے ان کی دلچسپی کا علم ہے۔ بھٹو کے بارے میں یہ سب کو معلوم ہے کہ وہ صرف چند گھنٹے سوتے تھے اور انتھک محنت کرتے تھے۔ رات دیر تک کی محفلوں کےباوجود ان کی مصروفیات کی توانائی قائم رہتی تھی۔ میں جب مطالعے کی اہمیت پر زور دیتا ہوں تو کئی لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ انہیں وقت نہیں ملتا۔ اب سے کچھ عرصے پہلے تک تو میرا جواب یہ ہوتا تھا کہ اچھا، آپ صدر اوباما سے بھی زیادہ مصروف ہیں کیونکہ وہ جو کتابیں پڑھتے ہیں ان کا ذکر بھی میڈیا میں ہوتا رہا ہے۔ اب بھٹو کی بات ہو رہی ہے تو سوچئے کہ ان کی زندگی کتنی برق رفتار تھی۔ صرف 51سال کی عمر میں انہوں نے کتنے نشیب و فراز دیکھے۔ اپنی پارٹی کے قیام کے بعد انہوں نے جو تحریک چلائی اس کا تصور بھی آج کل کے کئی سیاست دانوں کے لئے مشکل ہے۔ میری صحافت کا آغاز تھا اور میں ان کے جلسے گنتا بھی تھا۔ ٹی وی کیمرے ان کے ساتھ نہیں چلتے تھے اور سرکاری ٹی وی ان سے دور رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے پنجاب میں کئی جگہ لوگ مضافاتی سڑکوں پر جمع رہتے تھے کہ شاید بھٹو وہاں سے گزرے۔

لیجئے میں اپنے طے شدہ راستے سے پھر ہٹ گیا۔ ایک سیاسی رہنما کی دانشمندی اور علم سے کیا فرق پڑتا ہے اس کی مثال ہمیں بھٹو کی زندگی سے ملتی ہے۔(ان کے سیاست کے کچھ دور ایسے بھی آئے جن پر ان کی اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں کا سایہ تھا۔) وہ 30سال کے تھے جب مارشل لاکے وفاقی وزیر بنے اور ایوب خاں کے وزیر خارجہ کی حیثیت میں انہوں نے سفارت کاری کی ایسی سمت کے بیج بوئےکہ جواب ٹھوس حقیقت بن گئے ہیں لیکن ان کی سوچ کا سب سے بڑا مظاہرہ ایک نئی پارٹی کے نظریئے کی تشکیل تھا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ کام انہوں نے اکیلے نہیں کیا۔ بہت پڑھے لکھے سمجھدار ساتھیوں سے مشاورت کا ایک سلسلہ جاری رہا۔ بحث مباحثہ ہوا۔ رپورٹیں تیار کی گئیں۔ یہ ایک شعوری فیصلہ تھا کہ عوام کی سیاست کو بائیں بازو کے ہتھیاروں سے لیس کیا جائے۔ ایک روشن خیال اورلبرل معاشرے کے قیام کے لئے جدوجہد کی جائے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو آج کل کے ان سیاست دانوں کی سمجھ میں نہیں آتیں جو بھٹو بننا چاہتے ہیں۔ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ انقلابی بھی تھا اور اس میں عام لوگوں کی محرومیوں اور حسرتوں کو سیاسی عمل میں شامل کرنے کا عزم بھی تھا۔ پھر وہ چار اصول کہ:۔

(1) اسلام ہمارا دین ہے۔
(2) جمہوریت ہماری سیاست ہے۔
(3) سوشلزم ہماری معیشت ہے۔
(4) اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ اب ان نعروں کی کیا حیثیت ہے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت ہمیں کن نعروں کی اور کیسے منشور کی ضرورت ہے ۔ نئے بیانئے کی بھی بات ہو رہی ہے لیکن اتنی فکری صلاحیت کس لیڈر یاکس پارٹی کے پاس ہے کہ جو گزرتے وقت کی سرگوش

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے