صد سالہ اجتماع ،حقیقت کیا ہے؟

،پاکستان کواللہ رب العزت نے بے پناہ فیاضیوں نے نوازا ہے ، دریا سمندر پہاڑ لہلہاتے کھیت سونا اگلتی زمین اور سب سے بڑھ کر جفا کش اور محنتی عوام ،تاہم جب سے مملکت خداد اد وجود میں‌آئی ہے تو یہاں انسان کی ترقی ہونہ ہو، معاشی ترقی ہو نہ ہو لیکن ایک چیز نے بڑی جم کر ترقی کی ہے اور وہ کاروبار ہے مذہب کا چورن بیچنے کا کاروبار . . . اس کاروبار میں جب بھی کسی نے ہاتھ ڈالا ہے تو ہمیشہ سودمند ہی رہا ہے کیونکہ اس میں نقصان کا احتمال کم ہی رہا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ایک کلمہ پڑھنے والے آج مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

آپ پاکستان کی تاریخ کے اوراق اُلٹا لیجئے تو ہر صفحہ اس بات کا شاہد ہے کہ آپ کسی بھی سیاسی کاروبار میں مذہب کا تڑکا لگا دیں گے تو وہ سودا دھڑا دھڑ بکنے لگے گا ، ضیا ء الحق کا جہادی فارمولا ہو یا مدینے کی ریاست کے نعرے، ریڈیو مُلاکی طالبان تحریک ہویا ممتاز قادری والا معاملہ، جہاں پر بھی مذہب کا نام آتا ہے تو پاکستانی قوم بغیر سوچے سمجھے میدان میں کھود جاتے ہیں اور یکمشت سب کچھ لٹانے پر تیار ہوجاتے ہیں ، ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان کے سڑسٹھ فیصد لوگ اسلامی نظام کے حامی ہے اور اس ملک کے مسائل کا حل صرف اسلامی نظام میں دیکھتے ہیں، پاکستانی عوام کی مذہب سے اسی بے پناہ لگاؤ سے فائدہ اٹھا کر تمام مذہبی جماعتیں وقتاً فوقتاً مختلف نئے نئے اسلامی نعرے ایجاد کرکے اسلامی ریاست کے نام پر ووٹ لیتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان کا اصل مقصد اسلام کی جگہ اسلام آباد ہے ۔

اب چلتے ہیں جمعیت علماء اسلام کے نئے کھیل کی جانب جس کو نام دیا گیا جے یو آئی کے صد سالہ تقریبات کا، بالکل ماضی کی طرح اس بار بھی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے آئیندہ انتخابات جیتنے کیلئے اپنے اپنے لائحہ عمل کو ترتیب دینے میں کوشاں ہیں اور جمعیت کے صد سالہ تقریبات بھی اُسی زنجیر کی ایک کڑی ہے ،

صد سالہ تقریبات جے یو آئی کا ایک بھرپور پاور شو توتھا تاہم اصل میں یہ حکمران جماعت کا ایک سیاسی پلان تھا اوراس پلان کی رو سے حکمران جماعت نے ایک تیر سے تین شکار کھیلے ہیں،اس ساری کہانی کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ دیر کے لیے ماضی میں جانا ہوگا،،،، اس پلان کی منصوبہ بندی اس وقت شروع ہوئی جب سن دوہزار سولہ نومبر کے مہینے میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اچانک بیمار ہوئے اور اسلام آباد اور ملک کے دوسرے شہروں میں موجود اچھے اچھے ہسپتالوں کے باوجود وہ لاہور ماڈل ٹاون میں موجود وزیراعلی پنجاب اور وزیراعظم نواز شریف کے گھر کے قریب موجود اتفاق ہسپتال میں داخل ہوگئے اور پھر پتے کے اپریشن کے بعد مولانا صاحب نواز شریف صاحب کی طرح کرشماتی طور پر تین دنوں میں صحت یاب ہوکر چنبہ ہاوس منتقل ہوگئے ، مولانا صاحب کی بیماری حقیقت تھی یا ڈرامہ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ لاہور کے اتفاق ہسپتال اور چنبہ ہاؤس دھڑادھڑ عیادتوں کے دوران میڈیا کے آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ سارا پلان ترتیب دیا گیا حکمران جماعت کے رہنماوں نے انہی عیادتوں کے بہانے ہونے والی ملاقاتوں کے دوران مولانا صاحب کو خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کا راستہ روکنے کا ٹاسک دیا ، مولانا صاحب کو اس پلان کی کامیابی کے لیے ہر قسم مالی اور سرکاری معاونت فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی تاہم کہانی میں نیا موڑ اسوقت آیا جب گزشتہ دنوں امام کعبہ پاکستان تشریف لائے اور سیدھا جے یو آئی کے صد سالہ تقریب میں پہنچ گیا، اب چلتے ہیں امام کعبہ کی آمد اور جمعیت کے صد سالہ تقریب کی طرف۔

تمام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ جمعیت کی صد سالہ تقریبات ایک مذہبی اجتماع ہے اور امام کعبہ اس مذہبی اجتماع سے خطاب کرنے آرہے ہیں تاہم پلان کی جزیات کے مطابق اتنا کمال کھیلا گیا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ،،،، امام کعبہ پاکستان کیوں آئے اور کیسے آئے آئیے آپ کو سادہ الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں،،،، اس وقت کعبہ کے پانچ ائمہ ہیں اور ہرسال کعبہ کے تمام ائمہ ماہ رمضان سے پہلے سرکاری طور پر تمام اسلامی ممالک کے دورے کرتے ہیں جس کے بعد ان تمام دوروں کی رپورٹ سعودی حکومت کو پیش کی جاتی ہیں اور اسی رپورٹ کے تناظر میں سعودی عرب اگلے سال کیلئے مذہبی تنظیموں اور مذہبی جماعتوں کیلئے فنڈز بھیجنے کا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں ، ہر سال ہونے والے یہ دورے سرکاری ہوتے ہیں اور امام کعبہ جس ملک کا بھی دورہ کرتے ہیں وہی ملک اس دورے کے دوران ملاقاتوں کا پلان مرتب کرتے ہیں ، حکومت اس دورے میں امام کعبہ اور اس کے ساتھ آئے ہوئے وفد کو اسی ملک میں ہونے والے اسلامی قانون سازی اور سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی فنڈ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہیں جو کہ بعد میں سعودی حکومت کو پیش کی جاتی ہیں۔

اب حکمران جماعت نے ایک تیر سے تین شکار کیسے کھیلے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہیں، پہلا شکار۔ حکمران جماعت نے امام کعبہ اور اس کے ساتھ آنے والے وفد کو جمعیت کے اجتماع کے ذریعے یہ باور کرایا کہ نواز حکومت پاکستان میں مذہبی تنظیموں کی مکمل سپورٹ کر رہی ہیں اور جمعیت علماء اسلام کی صد سالہ اجتماع میں لاکھوں لوگوں کی شرکت سے یہ بات باور کروانا مقصود تھا کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کو مکمل سیاسی آزادی ہے اور وہ مقبولیت میں کسی بھی سیاسی جماعت سے کم نہیں ۔

دوسرا شکار۔ حکمران جماعت نے اس اجتماع کے ذریعے اپنے با اعتماد اتحادی اور پاکستان تحریک انصاف کے سخت حریف جے یو آئی کے ذریعے تحریک انصاف کو خیبر پختون خواہ میں چت کرنے کی ایک کامیاب پریکٹس کر ڈالی اور امام کعبہ کے آمد کے ذریعے جے یو آئی کے صد سالہ تقریب میں لاکھوں لوگوں اور تمام مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو جمع کرکے ایم ایم اے بحال کرنے کی صورت میں تحریک انصاف کا راستہ روکنے کی کوششیں بھی شروع کردیں، جے یو آئی کے ذریعے تحریک انصاف کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ خیبر پختون خواہ میں حکومت کی لنگوٹی کا یارجے یو آئی تحریک انصاف سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے ، اسی پلان کے مطابق امام کعبہ کو سرکاری طور پر جے یو آئی کے صد سالہ تقریب میں بھیج دیا گیا اور ان کو یہ باور کرایا گیا کہ اس وقت حکومت مذہبی تنظیموں کو مکمل طور پر سپورٹ کررہی ہیں اور اس اجتماع میں موجود یہ لاکھوں لوگ حکومت کی مذہب دوست پالیسیوں پر اعتماد کی وجہ سے جمع ہوئی ہیں

تیسرا شکار۔ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختون خواہ میں مذہب کا چورن بہت اچھی طرح سے بیچاجاسکتا ہے لہذا حکومت نے جے یو آئی کے صد سالہ تقریب میں نہ صرف امام کعبہ کو بھیجا بلکہ ان کے اجتماع کیلئے دیا جانے والا فنڈ بھی سعودی حکومت کی جانب سے دیے جانے والے فنڈز سے دیا گیا، مولانا فضل الرحمان کو صد سالہ تقریبات میں امام کعبہ کی شرکت کراکر ان سے مستقبل میں وفاداریاں لینے اور حکمران جماعت کیلئے پانامہ کیس میں ڈھال بننے کی قیمت بھی چکایا گیا، خیبر پختون خواہ کے عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے امام کعبہ کی امد کو کیش کیا گیا اور عوام صد سالہ اجتماع کو ایک مذہبی اجتماع سمجھ کر جمع ہوگئے، دوسری طرف امام کعبہ یہ دیکھ کر مطمئن ہوا کہ واقعی نواز شریف حکومت مذہبی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور مذہبی فرقی واریت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا ہے، نواز حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے صد سالہ تقریبات کے ذریعے سعودی حکومت کو یہ پیغام بھی دیا کہ سعودی عرب کی پالیسیوں کی تحفظ کرنے کیلئے پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کے علاوہ اور کوئی جماعت موزوں نہیں، اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو ائیندہ انتخابات میں سعودی عرب حکومت کی حما یت بھی حاصل ہوجائیگی اور مولانا فضل الرحمان کے ذریعے خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کا مقابلہ بھی کیا جائیگا، صد سالہ اجتماع سے سعودی عرب کو یہ باوربھی کرایا گیا کہ خیبر پختون خوا میں سعودی مفادات کی تحفظ کیلئے جے یو آئی اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) سے بہترجماعت کوئی نہیں، اب سعودی فنڈز سے ایک بار پھر ایم ایم اے بھی بحال ہوگی اور تحریک انصاف کا راستہ بھی روکا جاسکے گا ۔

اب بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ امام کعبہ صرف جمعیت کے صد سالہ تقریبات میں شرکت کیلئے مولانا فضل الرحمان کے دعوت پر ہی پاکستان آیا تھا تو پھر امام کعبہ کی جمعیت اہلحدیث مرکز کا دورہ اورجماعت اسلامی کے اکابرین کے ساتھ عالم اسلام کے حوالے سے ہونے والی ملاقاتیں کیوں ہوئیں؟؟؟ کیا امام کعبہ کبھی تبلیغی اجتماع پر بھی آنے کی زخمت کریں گے؟؟؟

پاکستانی عوام کو بے وقوف بنا کر ایک مذہبی اجتماع کے نام پر جمع کیا گیا کیونکہ حکمران جماعت کو پتہ تھا کہ یہ ایک بہترین موقع ہے، امام کعبہ کی امد اور فضل الرحمان کی صد سالہ تقریبات ایک تگڑا سودا ہے اور مذہب کا چورن بیچنے کا یہی نادر موقع ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے