دامن کو ذرا دیکھ

ہمارے ناقدوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ کسی پر تنقید کرتے ہیں تو بات کو دلیل اور سلیقہ سے کہنے کے بجائے جذباتی اور اشتعال انگیز طرز کو اختیار کیا جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اِنھیں ہر سمت اور ہر جگہ منظم سازش نظرآتی ہے اور اگر سازش کو ہندوستان سے جوڑ دیا جائے تو مخالف کو ایجنٹ بنانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر صفدر محمود ایک طویل عرصے سے جنگ میں کالم لکھ رہے ہیں اور خوابوں اور مفروضوں کی بنیاد پر پاکستان کی تشکیل کر رہے ہیں۔ اگر کبھی ان کی بنائی ہوئی تاریخ کو چیلنج کیا جائے تو یہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ اپنے کالم میں اُنھوں نے محمد بن قاسم کے بارے میں بھی خیال آرائی کی ہے۔ اس سلسلے میں اگر وہ میری کتاب’’سندھ خاموشی کی آواز‘‘ میں سندھ میں عرب دور حکومت والی بات پڑھ لیں اور اُس میں اُن کو کوئی سازش نظر نہ آئے تو سندھ کی تاریخ کے بارے میں اُن کے علم میںمزید اضافہ ہو گا اور اس موضوع پر وہ جی ایم سید کا مختصر کتابچہ’’سندھ جو سورما‘‘ پڑھ لیں تو محمد بن قاسم کی شخصیت کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے۔

ولی خان نے اپنی کتاب ’’Fact are Fact‘‘میں یہ حوالہ دیا ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں نے قرار داد لاہورکی تحریر میں حصہ لیا لیکن انہوں نے اس دستاویز کا حوالہ نہیں دیا جس سے انہوں نے یہ مواد لیا تھا جب میں اپنے دوست ڈاکٹر اشتیاق احمدسے جو سوئیڈن کی اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں اور پاکستان کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ دریافت کیا تو انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’پرویز پروازیؔ کی مرتب کردہ کتاب Sir Zafar-u-llah Contribution to the Freedom Movement (1926-1947)جو 2011ء میں شائع ہوئی ۔

اس میں صفحہ30سے صفحہ110میں سر ظفراللہ خاں نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے وائسرائے کے ایما پر مسلم لیگ سے مل کر ڈرافٹ تیار کیا تھا۔ انہوں نے اپنا نام اس لیے خفیہ رکھا کیونکہ وہ اس وقت وائسرائے کونسل کے ممبر تھے۔‘‘ مزید براں آپ کو یہ علم بھی ہونا چاہئے کہ مختلف جماعتیں فرقے اور گروہ اپنے مخصوص دِن مناتے ہیں لیکن قومی دِن کی حیثیت مختلف ہوتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ 23مارچ کو قرار دادِ لاہور کے تعلق سے قومی دِن ہونے کا اعلان کب کیا گیا؟ آپ کی جانب سے میرے اِن سوالوں کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔ کہ جب اس قرار داد سے سر سکندر حیات نے دوسرے ہی دن لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا اور کچھ ہی عرصے بعد اس قرار داد کے پیش کرنے والے بنگال کے فضل حق بھی اس سے دور ہو گئے تھے۔ ویسے بھی اس قرار داد میں نہ تو پاکستان کا نام لیا گیا تھا اور نہ ہی مذہب کا کوئی ذکر تھا۔

قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں ڈاکٹر عائشہ جلال نے اپنی The Sole Spokesmanاور Heraldکے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ جناح تقسیم کے حق میں نہیں تھے۔ اب آپ ذرا اس موضوع پر ڈاکٹر عائشہ جلال سے بھی بحث کرلیں۔ میں ذاتی طور پر ان بحثوں میں اُلجھنا نہیں چاہتا اور اس خیال کا حامی ہوں کہ ہمیں تقسیم سے آگے کی تاریخ کا تجزیہ کرناچاہئے۔ کیونکہ اگر ہم نے تاریخ کو 1947ء تک کے واقعات میں منجمد کر دیا تو ہماری تاریخ فہمی اُسی دائرے میں محدود رہے گی۔ تاریخ کو شخصیتوں سے نکال کر سماجی اور معاشی قوتوں اور بدلتے ہوئے فلسفہ تاریخ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے