بجلی بحران، بھلکڑ قوم اورسیاسی واردات

چند دن پہلے میرے چچا محترم حاجی محمد اسلم خان دارفانی سے کوچ کر گئے۔ تعزیت پر آئے اکثر لوگوں کا موضوع گفتگو اس سال لوڈشیڈنگ کا نسبتا زیادہ ہونا تھا۔ ہرکوئی اس بات پر متفق نظر آرہا تھا کے اگر ن لیگ کی حکومت ۲۰۱۸ کے الیکشن سے پہلے لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا وعدہ پورا نہیں کرتی تو بہت بری شکست سے دوچار ہوجائے گی۔

لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کے نواز حکومت بجلی کے اہم ترین مسئلے پر تو معصوم پاکستانی عوام کیساتھ تو واردات ڈالنے کی پوری تیاری کر چکی ہے۔ ۲۰۱۳ کی الیکشن کیمپین کے دوران توصرف ایک ہی وعدہ کیا جا رہا تھا کے پاکستان کو ہمیشہ کے لیے اندھیروں سے نکال باہر کریں گے۔ شہباز شریف نے تو جوش خطابت میں پہلے چھ ماہ میں اور پھر ایک سال اور کسی جگہ ۲ سال کے اندر لوڈشیڈنگ کہ مکمل خاتمہ نہ کرنے پر اپنا نام تبدیل کرنے کی پیشکش کردی تھی۔ نواز شریف صاحب کا کہنا تھا کے میرے پاس ایسی تربیت یافتہ ٹیم ہے جس کے پاس پہلے دن سے ایسا پلان تیار ہے جو پاکستان کوہمیشہ کے لیے روشن کردے گا۔

پھر یہ کیا ہوا ؟ اس پانچ سالہ دور کی اخری گرمیاں بھی آ گئیں لیکن لوڈشیڈنگ کے حالات تو پچھلے سال سے بھی بدتر ہیں۔ میرے پاکستانیو اس کالم کا مقصد قطعا کسی ایک سیاسی جماعت کو ٹا رگٹ کر کہ نقصان پہنچانا نہیں بلکہ پاکستانی عوام کو وقت سے پہلے حقائق کی روشنی میں آگہی دینے کی ایک کوشش ہے۔ کس طرح ہر الیکشن کے دوران عوام کے جذبات کیساتھ کھیل کر واردات ڈال دی جاتی ہے اور اب بار پھر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی مکمل تیاریاں کی جا چکی ہیں۔

اطلاع کے مطابق نواز شریف صاحب کو یہ تو بتا دیا گیا ہے کے ان کی حکومت لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جس کا اظہار پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف بھی کئی بار کر چکے ہیں ۔ اس سے پہلے تو نواز شریف صاحب جو قوم کی اجتماعی یاداشت کے کمزور ہونے کی وجہ سے مستفید ضرور ہوتے رہے ہیں لیکن اس بار الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے انقلاب سے انتہائی خوفزدہ ہیں کیونکہ ماضی میں کیے گئے وعدوں کو لوگوں کے ذہنوں سے تو ڈیلیٹ مارا جا سکتا ہے لیکن انٹرنیٹ میں موجود اپنے کیے گئے وعدوں سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ اب سننے میں یہ آ رہا ہے کے نواز شریف صاحب نے سختی سے یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ مجھے ہر حال میں صرف الیکشن کے 6 مہینے لوڈ شیڈنگ فری بجلی چاہیے تاکہ الیکشن کیمپین کے دوران عوام کے ساتھ پھر واردات ڈالی جا سکے۔ یہ بھی دعوی کیا جا سکے کہ ہم نے پاکستان کو ہمیشہ کے لیے اندھیروں سے جان چھڑا دی۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ابھی سے کام شروع کر دیا گیا ہے اور موجودہ گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کا زیادہ ہونا بھی انہی احکامات کا شاخسانہ ہے۔ 6 بجلی گھروں کو یک مشت بند کرکے مینٹیننس شروع کر دی گئی۔ پرانے واجبات کی ادائیگی کے لیے عارضی فنڈز ایک دوست مسلم ممالک سے لیے جا رہے ہیں جنھوں نے پچھلے الیکشن میں بھی مالی مدد کی تھی۔ فرنس آئل کے ذریعے مہنگی بجلی پیدا کر کے سبسڈی دی جائے گی۔ تاکہ وقتی طور پر عام عوام کو ریلیف دے کر الیکشن میں جایا جا سکے بعد میں جب اقتدار میں پہنچیں گے تو کسی کے کیا بگاڑ لینا ہے۔ ویسے بھی جب اس سال گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کیوجہ سے زیادہ ستائے جانے والی عوام کوجب لوڈ شیڈنگ سے ریلیف ملے گا اور ساتھ یہ خوشخبری سنائی جائے گی کے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے تو نفسیاتی طور پر وہ شکرانے کی کیفیت سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔

اس قوم کی اجتماعی یاداشت پر میں نے چار سال پہلے ایک کالم (قومی یاداشت ایک المیہ) لکھ کر ماتم کیا تھا کے کس طرح الیکشن میں سنہرے خواب دیکھانے والی جماعتیں الیکشن کے بعد سارے وعدوں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں ، مک مکا کرکہ پورے پہلے چار سال صرف پیسہ بناتی ہیں اور پھر اگلے الیکشن سے پہلے آخری سال ایک دوسرے کے ساتھ اپوزیشن اپوزیشن کا نعرہ لگاتیں ہیں اور نئے سرے سے نیا ڈرامہ رچا کرنئی کیمپین، نئے وعدوں کے نام پر ایک بار پھر واردات ڈال دیتے ہیں اور بھلکڑ قوم کیا مجال ہے کےصرف یہ سوال ہی کر لے کے جناب پانچ سال پہلے کیےگئے وعدوں کا کیا حشر ہوا اپوزیشن کا یہ ڈرامہ آپ کو آخری سال کہ آخری چند مہینوں میں ہی کیوں یاد آتا ہے ۔

آپ کو تھوڑا سا ماضی قریب میں لے جاتے ہیں تو آپ کو احساس ہو گا کے ان مک مکا والی سیاسی جماعتوں کا 2013 کہ الیکشن سے پہلے بھی واردات کا پیٹرن تقریبا یہی تھا جو موجودہ الیکشن میں ہونے جا رہا ہے۔ موجودہ پانچ سالہ دور میں زرداری صاحب پہلے ساڑھےتین سال تک ملک سے باہر دبئی بیٹھ کر نواز حکومت کو سہارا دیتے رہے اور جب پاکستان تشریف لاتے تو رائیونڈ میں اعلی معیار کی دعوتیں ضرور اڑاتے رہے اور اب جب الیکشن کا وقت قریب آیا عوام کو بے وقوف بنانے کے لیئے نعرہ لگا دیا ’گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے‘ ٹھیک اسی طرح گزشتہ 2013 کے الیکشن سے پہلے نواز شریف صاحب نے زرداری صاحب کے ساتھ پہلے ساڑھےتین سال تک مخلوط حکومت بنائے رکھی ایک دوسرے کو بڑا بھائی کہہ کر پکارتے رہے اور جب الیکشن کا دور دورہ شروع ہوا تو زرداری صاحب کو سڑکوں پرگھسیٹنے کی باتیں ہونےلگیں۔ حیرت کی بات یہ کے پچھلے الیکشن میں نواز شریف صاحب نے کہا تھا کے زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لو ٹی ہوئی دولت باہر نکالی جائے گی دوسری طرف اس بار مردان جلسے میں زرداری صاحب نے نواز شریف صاحب کا پیٹ پھاڑنے کا اعلان کر دیا ہے المختصریہ کہ ساری نورا کشتی آخری سال کھیلی جاتی ہے اور اس کا بنیادی مقصد عوام کو ایک بار پھر چونا لگانا ہوتا ہے۔

اس الیکشن میں لوڈشیڈنگ کو ہمیشہ کے لیئے خیر آباد کردینے کا جھوٹا اعلان کر کے عوام سے ووٹ بٹورنے کی مکمل فیلڈنگ لگائی جا چکی ہے۔ کیونکہ عوام نندی پور پاور پراجیکٹ میں کی گئی کرپشن اورپھر اس کا ریکارڈ بھی جلائے جانے کو بھول چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں 350 میگا واٹ کا بھکی پاور پلانٹ افتتاح کے ایک ہفتے کے اندر ہی بند ہوگیا اور شا ید جلد اس کا ریکارڈ بھی جلا دیا جائے گا لیکن عوام کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا۔ اب آتے ہیں اصل حقائق کی طرف کہ لوڈشیڈنگ کہ اعداد شمار کیا کہتےہیں اوردراصل بجلی کا مئسلہ کیا ہے اور کیوں ہے۔

پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 22797 میگاواٹ ہے، لیکن پیداوارتقریبا 13000 میگاواٹ کے قریب ہے جبکہ حالیہ کچھ سالوں میں بجلی کی طلب 20000 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔پاکستان میں بجلی کی قیمتیں اس پورے خطے (برصغیر) میں سب سے زیادہ ہیں جس میں انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں ۔ بجلی کی پیداوار میں پن بجلی کا حصہ تقریبا تیس فیصد، فرنس آئل کا چالیس فیصد اور گیس کا تیس فیصدہے۔ بجلی کی قیمت پن بجلی کی پیداوار کے لیے0.08 روپے ہے ،فرنس آئل سے پیدا کی جانے والی بجلی کی قیمت 21.25 روپے اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 5.58 روپے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پربجلی سب سے مہنگی ہے۔آزاد کشمیر میں نیلم جہلم ہایئڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ نےآ مدہ الیکشن سے پہلے 963 میگاواٹ کا اضافہ کرنا ہے لیکن لوڈشیڈنگ کہ خاتمے کے لیے ناکافی ہو گا

اسلام آباد کے سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے طاہر دھندسا کا کہنا ہے کہ حکومت 891 ارب روپے سے زائد تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر خرچ کر رہی ہے اس سے کم پیسوں میں بہت سستی اور زیادہ بجلی، پن بجلی کے منصوبوں سے بنائی جا سکتی ہے لیکن کیونکہ پالیسی ساز ادارے توانائی کو قلیل مدت کے سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں، اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے اس معاملے کے دائمی حل کے لیے کبھی سنجیدہ نظر نہیں آتے۔

با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت ہماری ضروریات کو کافی ہے اور بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ موجودہ وسابقہ حکومتوں کی نہ صرف نااہلی ہے بلکہ بد نیتی پر مبنی حکمت علی ہے ۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس معاملے میں صرف ایمانداری سے رینٹل پاورز ، جینریٹر و یو پی ایس کمیشن و کاروبار مافیا کو کنٹرول کرے تاکہ نہ صرف لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے بلکہ ملکی برآمدات کا جو بیڑہ غرق ہو چکا ہے اسے بھی سطح آب پر لایا جا سکے۔ بجلی کے بحران نے کاروبار میں مسلسل مندی ، بے روزگاری اور افراط زر کی شرح میں اضافہ کہ ساتھ ساتھ ملک کی معشیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

اب تو دنیا بھر میں دوسرے کئی ذرائع سے بھی خوب بجلی پیدا کی جا رہی ہے جیسے شمسی توانائی ، ہوائی پنکھے و سمندری لہریں وغیرہ۔ مگر افسوس کہ اس ملک بے شمار ضروریات زندگی کی اشیاء وافر مقدار میں پیدا کرنے کی صلاحیت کے باوجود چند بڑے مگرمچھوں کہ معاشی مفادات کی خاطران معاملات میں حکمران صرف اس لیے دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ وہ اس کرپٹ نظام سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں

قصہ مختصر یہ کہ 2018 کے الیکشن سے پہلے حکومت کے پاس ایسا کوئی الللہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر سکیں او ر نہ کی تکنیکی طور پر اس قلیل مدت میں یہ ممکن ہے لیکن عارضی طور پر چار پانچ ماہ کہ لیے معصوم پاکستانیوں کے ہی پیسوں سے مہنگی ترین بجلی پیدا کر کہ ایک بار پھر جھوٹ بولا جائے گا کےکہ ہم نے حسب وعدہ لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے تاکہ الیکشن میں ووٹ بٹورے جا سکے الیکشن کہ بعد اقتدار میں آ گئے تو ٹیکنیکل خرابیوں کا بہانہ بنانا کون سا مشکل ہے اور اگر اقتدار نہ مل سکا تو آ نے والی حکومت کہ لیے کڑا متحان چھوڑ جائیں گے۔ ایسے پڑتی ہے سیاسی واردت لہذا عوام سے گزارش ہے کہ آنکھیں کھلی رکھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے