دیو مالائی ہنزہ : آپ کا سفری رہنما

اگر میری طرح آپ نے بھی مستنصر حسین تارڑ صاحب کا سفر نامہ ’ہنزہ داستان‘ پڑھا ہے اورگلگت بلتستان کے بارے میں دستاویزی فلمیں دیکھی ہیں تو آپ کو بھی شاید ہنزہ جانے کی خواہش ایک عرصے سے مجبور کر رہی ہو کہ اب کی بار اس جنت اراضی کو دیکھ ہی لیا جائے ۔ آپ کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے یہ سفر نامہ مددگار ثابت ہو گا۔

[pullquote]ہنزہ کب جایا جائے؟[/pullquote]
گلگت ، بلتستان جانے کیلئے مئی سے اگست کے دوران سفر بہت سود مند رہتا ہے کیونکہ راستے کھل چکے ہوتے ہیں اورموسم نہایت خوشگوار ہوتا ہے لہٰذا گزشتہ سال مئی میں، میں نے ہنزہ کیلئے رخت سفر باندھا ۔اس موسم میں سوائے خنجراب کے آپ کو بھاری جیکٹس کی ضرورت نہیں پڑتی البتہ شام کو سوئیٹر پہن لینا چاہیے۔

[pullquote]ہنزہ تک کیسے پہنچا جائے؟[/pullquote]
ہنزہ پہنچنے کیلئے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ کاغان ویلی سے ہوتے ہوئے بابوسر پاس جایا جائے اور وہاں سے چلاس پہنچا جائے ۔دوسرا راستہ شاہراہ ریشم کا ہے جس کے لئے بشام اور کوہستان کے علاقوں داسو اور پٹن سے گزرنا پڑتا ہے ۔یہ دوسرا راستہ بہت طویل اور خطرناک ہے جہاں داسو سے چلاس تک شاہرا ہ ریشم کی حالت بھی خراب رہتی ہے ۔

بہتر ہوگا کہ ہنزہ کسی ٹورنگ کمپنی کے ساتھ آیا جائے کیونکہ محض بیس ہزار میں آپ ساری ہنزہ وادی کا لطف اٹھا سکتے ہیں جس میں قیام و طعام دونوں شامل ہیں جبکہ ذاتی گاڑی میں یہ سفر خاصا مہنگا ثابت ہوسکتا ہے ۔

[pullquote]چلاس پہلی منزل :[/pullquote]
چلاس ایک چھوٹا سا شہر ہے اور یہاں قیام کیلئے شنگریلا ہی سب سے بہترین ہوٹل ہے جوسندھو دریا کے کنارے واقع ہے ۔کہا جاتا ہے کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ یہ ہوٹل بھی سندھو میں غرق ہوجائے گا مگر یہ بات ہم دوہزار گیارہ سے سن رہے ہیں۔ اس ہوٹل کے سوا چلاس میں باہر سے کھانا کھانے سے اجتناب کریں تو بہتر ہوگا۔یہیں میں نے اپنے سفر کی پہلی رات گزاری۔

اگلی صبح میری منزل کریم آباد تھی جو ہنزہ کا صدر مقام ہے ۔یہ دیکھ کر تھوڑا افسوس ہوا کہ چلاس سے رائے کوٹ تک دو گھنٹے کے سفر کے دوران سڑک کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ۔رائے کوٹ برج سے ایک راستہ دائیں جانب’’ فیری میڈوز ‘کی جانب نکلتا ہے اور تین گھنٹے کے جان توڑ سفر کے بعد آپ نانگا پربت کے برف زار میں پہنچ جاتے ہیں ۔

رائے کوٹ برج کے بعدمیں ایک نئی شاہراہ ریشم سے روشناس ہوا اور یہ محسوس ہوا کہ واقعی ہماری حکومت’’ سی پیک ‘‘ منصوبے کو جنگی بنیادوں پر شروع کرچکی ہے ۔یہ نئی سڑک لاہور اسلام آباد موٹروے سے بھی زیادہ خوبصورت اور پائیدار ہے ۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رائے کوٹ برج سے خنجراب پاس صرف سات گھنٹے کی مسافت کے بعد پہنچا جاسکتا ہے ۔

آج سے تین سال پہلے یہ تصور محال تھا ۔جگلوٹ کے بعد میںعالم برج سے گزرا جہاں دائیں طرف اس برج کو کراس کر کے سکردو جایا جاسکتا ہے۔ یہ راست بلتستان کی حسین وادیوں کو نکلتا ہے ۔گلگت سے پہلے ’پڑی‘ کے مقام پر پہلی سرنگ نے ہمارا استقبال کیا ۔ہر طرف چینی ورکرز اور’’ ایف ڈبلیو او ‘‘متحرک تھے ۔گلگت بائی پاس سے ہوتے ہوئے ہم ضلع نگر پہنچ گئے ۔

[pullquote]کریم آباد دوسری منزل:[/pullquote]
کریم آباد میںرہائش کے لئےتین ہزار یومیہ میں آپ آرام دہ رہائش کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔کریم آباد میں’’ بلتت فورٹ‘‘نہایت دلفریب مقام ہے۔ یہاں ایک دلکش باغیچہ بھی ہے جبکہ’ بلتت فورٹ‘‘ کریم آباد شہر میں بلندی پر واقع ہے ۔ بلتت فورٹ تبت کے لہاسا پیلس اور لہہ کے قلعے سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہاں سے راکا پوشی ،گولڈن پیک ،لیلیٰ پیک اور التر گلیشیر کا بھی دیدار کیا جاسکتا ہے ۔قلعے کی چھت پر بنی بالکونی اپنی مثال آ پ ہے ۔

[pullquote]خنجراب پاس تیسری منزل:[/pullquote]
خنجراب پاس کے راستے میں ’’گلمت‘‘ نامی ایک دلکش قصبہ آتا ہے جو ہنزہ کی دیہی زندگی کی عکاسی کرتا ہے ۔یہاں سے تین گھنٹے دور ’سوست ‘کا قصبہ ہے جو پاکستان کا آخری قصبہ ہے جس کے بعد چین تک کوئی آبادی نہیں ہے ۔یہاں سے سفر قدرے بلند ہے اور خنجراب پاس سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے ۔اونچائی کی وجہ سے سر درد اور ابکائی آنا عام بات ہے ۔’’ خنجراب بارڈر‘‘ ایک برفانی سرحد ہے جہاں باوجود دھوپ کے شدید سردی ہوتی ہے ۔ لہذا یہاں اپنے ساتھ گرم کپڑے رکھنا بہت ہی ضروری ہے ۔مگر یہاںسرحد پر واہگہ بارڈر والی کشیدگی کی جگہ دوستی کی گرم جوشی محسوس ہوتی ہے ۔

[pullquote]عطاء آباد جھیل:[/pullquote]
میری آخری منزل’ عطاء آباد جھیل‘ تھی جو نیلے پانیوں کا لازوال ذخیرہ ہے۔ ایک حادثے کے نتیجے میں وجود میں آنے والی جھیل اب ایک پکنک سپاٹ بن چکی ہے۔ یہاں کشتی رانی کی سہولت تو ہے مگر اس کے ساتھ یہاں ریسٹ ہائوسز اور واش روم کا بھی بندوبست ہونا چایئے ۔

دوران سفر ایک آسٹریلین سیاح فرانسزسے ملاقات ہوئی، اس نے کہ’’ آپ پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ قدرت نے اتنے بڑے بڑے پہاڑ آپ کو عطا کئے ۔ایسی اونچائیاں ہمارے آسٹریلیا میں نہیں۔ میںبے شمار ممالک میں گیا، ہر جگہ مجھے ایک سیاح کی طرح ٹریٹ کیا گیا مگر صرف پاکستانیوں نے مجھے ایک مہمان سمجھا ہے ـ‘ ‘۔

حرف آخر یہ ہے کہ اس سال گلگت بلتستان لاکھوں سیاح گئے مگر افسوس ان حسین وادیوں میں کوڑا کرکٹ بھی پھیلا گئے ۔ہمیں اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ گھر تو آخر اپنا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے