چھتری جیسے رشتے

کل سے ہی موسم ابر آلود تھا اور کسی بھی وقت بارش کا امکان تھا ، میرا ارادہ تو یہی تھا کہ چھتری ساتھ لے جائوں لیکن پھر وہی ازلی سستی آڑے آگئی اور نتیجہ کیا ہوا کہ دفتر سے واپسی پر بارش میں بھیگنا مقدر ٹھہرا ۔لیکن ۔اس ایک دن چھتری کے نہ ہونے سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ میں نے سوچا کہ چھتری بھی کتنے کام کی چیز ہے ؟

چاہے دھوپ ہو ، گرمی ہو یا بارش سب جگہ انسان کو پناہ مہیا کرتی ہے ، ان تمام موسمی آفات سے محفوظ رکھتی ہے اور کبھی بے اماں نہیں چھوڑتی ، یہی سوچتے سوچتے ہی میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ چھتری کی طرح ہمارے اردگرد کتنے رشتے بھی ایسے ہیں جو چھتری کی طرح کی چھایا ہیں ، جو ہماری غلطیوں کے ہونے کی باوجود ہمیں بار بار معاف کرتے ہیں ، ہمارے لئے قربانی دیتے ہیں ، ہماری خوشی کی خاطر اپنی خوشیاں تیاگ دیتے ہیں ۔

ہمارا خیال بالکل اسی طرح رکھتے ہیں کہ ہم زندگی کی ہر دھوپ سے محفوظ ہوجاتے ہیں ہر تکلیف اور دکھ ہم سے منہ موڑ لیتا ہے ، لیکن یہ ہماری کوتاہی ہی ہوتی ہے کہ ہم تب تک نہیں جان پاتے جب تک کہ ہم پر کوئی کڑا وقت آکر ان لوگوں کی ہمارے لئے محبت کو واضح نہ کر دے ۔

یا سادہ لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ بس ہمیں تب تک اپنے بہن بھائیوں ، ساتھیوں ، دوستوں ، بزرگوں اور اساتذہ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا جب تک کہ ہم بارش میں بھیگ نہیں جاتے ، کوئی آندھی یا طوفان ہماری آنکھوں میں گرد نہیں ڈال دیتا ۔

جب ہم نفرت ، حسد ، رقابت کی آندھی اور بارش کا سامنا کرتے ہیں تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ خوب صورت رشتوں کی چھتری نہ ہونے سے ہم کتنے بے اماں ہیں ۔آئیے آج کے دن یہ عہد ہی کرلیں کہ اپنے ان رشتوں کی اس چھتری ، اس چھایا کو قائم رکھیں گے تاکہ دھوپ ہمارے اندر نفرتوں کے آشیانوں کی بنیاد نہ رکھ سکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے