گینگ ریپ: تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی

"تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی” ، یہ وہ الفاظ ہیں جو بدنام زمانہ دہلی گینگ ریپ میں ملوث شخص نے زیادتی اور قتل کے جرم کی سزا سنائے جانے کے بعد کہے تھے۔

دسمبر 2012 کی ایک رات لڑکی کا چلتی بس میں ریپ کرنے پر یہ شخص پانچ دیگر افراد سمیت مجرم قرار پایا تھا۔ ان افراد نے لڑکی کے ساتھ بدترین سلوک کیا تھا، وہ اس قدر زخمی تھی کہ ملکی ڈاکٹرز بھی کوئی مدد نہیں کر پائے، جس کے بعد اس لڑکی کو سنگاپور لے جایا گیا، وہاں کے ڈاکٹرز نے بھی اس کی جان بچانے کی بھر پور کوشش کی۔ واقعے کے چند ہفتوں بعد، زیادتی کرنے والوں کی شناخت کرنے اور اپنا بیان قلمبند کروانے کے بعد، وہ لڑکی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جان ہار بیٹھی۔

گزشتہ ہفتے، ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ان پانچ افراد کو ذیلی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ (ان میں سے ایک فرد جرم انجام دیتے وقت نابالغ ہونے کی وجہ سے سزا سے بچ گیا۔ اس نے تین سال ایک اصلاحی ادارے میں گزارے۔)

ماہرین کے مطابق، یہ ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ ہندوستان میں عدالتیں عام طور پر سزائے موت سناتی ہیں لیکن مختلف تکنیکی طریقے، جیسے قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے گمراہ کن تحقیقات وغیرہ، کی بنیاد پر اپیل دائر کرنے پر اکثر فیصلے کو معطل کر دیا جاتا ہے۔

توقع کی جا رہی تھی کہ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوگا، ملزمان پر ’رحم’ کھانے کے لیے چند وضاحتیں یا قانونی گنجائش نکالنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ مگر فیصلہ معطل نہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے بھی اس کیس میں بدترین سزا کو برقرار رکھنا ضروری سمجھا، یہ واقعہ اس قدر انسانیت سوز تھا کہ جس پر پورے ہندوستان میں سیکڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور جو دنیا بھر کے اخباروں کی سرخیوں میں چھایا رہا۔

پاکستان میں اس مسئلے پر بہت کم دھیان دیا گیا۔ ہندوستانی سپریم کورٹ کے برعکس، پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں اکثر موت کی سزائیں سنائی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ان افراد کو بھی جن کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہوتا۔ کئی کیسز میں تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں مسائل ہونے کے باوجود بھی ملزمان کو موت کی سزا دی گئی ہے۔ مگر یہاں موضوع موت کی سزا نہیں بلکہ ریپ ہے۔ جہاں ہندوستان نے ایسے گینگ کی صورت میں زیادتی کرنے والوں کے لیے سب سے بدترین سزا مقرر کی ہے، وہاں پاکستان کو اب بھی زیادتی کے مقدمات کے لیے ایسے اقدام اٹھانا باقی ہے۔

اس سے متعلقہ ایک مثال 2002 میں مختاراں مائی سے ہونے والا گینگ ریپ ہے۔ دہلی ریپ کیس کی لڑکی کی ہی طرح مختاراں مائی نے بھی زیادتی کرنے والوں کو دیکھا تھا اور انہیں پہچان بھی سکتی تھیں اور انہوں نے ایسا کرنے کی بھی ٹھانی۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ پاکستان میں جس طرح زیادہ تر مقدمات کے ساتھ ہوتا ہے ویسے ہی اپیلوں کے ذریعے یہ کیس بھی ایک سے دوسری عدالت چکر لگاتا رہا، اور قانونی دائرہ اختیارات کی پیچیدگیوں میں الجھا رہا، یہی ہمارا پاکستانی عدالتی نظام ہے۔

ابتدا میں 6 ملزمان، جن میں مبینہ زیادتی کرنے والے افراد اور پنچائت میں ریپ کا فیصلہ سنانے والے افراد شامل ہیں، مجرم قرار پائے تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایک خاتون جو ایک شدید تکلیف دہ آزمائش سے گزریں ہیں اسے انصاف مل جائے گا۔

مگر اس کہانی کا انجام ایسا نہیں ہوا۔ جن 6 میں سے 5 ملزمان کو انسداد دہشتگردی عدالت نے مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنائی تھی، 2005 میں لاہور ہائی کورٹ نے انہیں بری کر دیا اور چھٹے ملزم کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ 2011 میں، ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کو بھی خارج کر دیا گیا۔

جب فیصلہ سنایا گیا تھا ان دنوں بی بی سی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں مختاراں نے بتایا کہ پولیس نے ان کا بیان درست انداز میں قلمبند نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام پاکستانی عدالتوں پر اپنا اعتماد کھو چکی ہیں۔

زیادہ تر پاکستانی خواتین، خاص طور پر وہ جو کسی نہ کسی صورت عدالتی نظام سے نبردآزما ہوئی ہیں، مختاراں مائی سے اتفاق کریں گی۔

جس طرح دہلی میں خاتون سے زیادتی کرنے والے نے خاتون کو ہی رات کو 9 بجے گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے زیادتی کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا تھا، ٹھیک ویسے ہی یہاں پر بھی زیادہ تر پاکستانی مرد، مردوں کے ہاتھوں تشدد اور حراسگی کا شکار بننے والی خواتین کو ہی اصل مجرم قرار دیتے۔

اگر ایک مرد اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے تو خود اس عورت نے ہی اسے ایسا کرنے پر ‘مجبور’ ہی کیا ہوتا ہے، کیونکہ اس کی بیوی نے اپنے شوہر کے مطالبوں پر جلد حامی نہیں بھری ہوگی، یا پھر اس نے ان مطالبوں کو پورا کرنے پر خود کو پوری طرح وقف نہیں کیا ہوگا اور غلامی میں کسر رہ گئی ہوگی۔

سرحد کی لکیر بھلے ہی پاکستان اور ہندوستان کو تقسیم کرتی ہو مگر ’ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی’ کی منطق دونوں ملکوں کے مردوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔

دہلی ریپ واقعے کے بعد ابتدائی چند دنوں میں، کئی اخبارات نے تبصرے شائع کیے جس میں کہا گیا کہ مردوں کی جسمانی ساخت کوئی اتنی خاص ہٹی کٹی یا مضبوط نہیں تھی اور دکھنے میں عام سے تھے۔ یہ ایک اہم اور سوچنے پر مجبور کرنے والا تبصرہ ہے کیونکہ یہ ہر برصغیر کے مرد کی جانب توجہ دلاتا ہے جو موقع کی تلاش میں گھات لگائے بے حس ہو کر بیٹھا ہے۔ ایسا ہی موقع دہلی میں ہاتھ لگا تھا اور جب 6 مردوں نے لڑکی کو رات کو 9 بجے گھر سے باہر ہونے کی سزا دینے کے لیے مل کر اسے اپنا شکار بنایا۔

دیگر کو شاید کو یہ موقع کسی دوسری جگہ، کسی خالی دفتر یا اندھیری راہداریوں یا سنسان گلیوں میں ملے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کھلے عام مرد غالب ہیں اور خواتین خود سے برتی جا رہی ناگواریوں کے مطابق خود کو ڈھالتے ہوئے بڑی ہوتی ہیں، وہاں عورت کو ہی ہمیشہ گناہ گار سمجھا جاتا ہے؛ ریپ کیسز میں اضافہ اور ریپ کرنے والوں کی سزاؤں میں کمی ہی اس نکتے کو ثابت کر دیتی ہے۔

خواہ فوجی طاقت ہو یا کھیل کا میدان،بیان بازی ہو یا علاقائی اثر رسوخ پاکستان اور ہندوستان ہر شعبے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ مگر اس معاملے پر ہندوستان کو پیچھے چھوڑنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

جہاں ہندوستان نے بھلے ہی صرف پانچ مجرموں کو بدترین سزا سنائی ہو، وہاں پاکستان ریپ کرنے والوں کو آزاد چھوڑتا رہے گا۔ وہ تمام عام آدمی، وہ جو یہ مانتے ہیں کہ خواتین ان کے ناپاک ارادوں اور اپنی شکار گاہ کے دائرے میں اپنی موجودگی سے ہی انہیں ایسا کرنے کی خود دعوت دیتی ہیں، انہیں فکر کی کوئی ضرورت نہیں؛ پاکستان میں کوئی بھی انہیں روکے گا نہیں اور نہ ہی کوئی ان کے راستے میں آئے گا۔

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے