نوجوان اور اندھی تقلید

گزشتہ کچھ مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات نے یہ بات ثابت کی ہے کہ پاکستان کا نوجوان بیسیوں رہنما موجود ہوتے ہوئے بھی ایک ایسی سمت جا رہا ہے ۔ جس کی منزل سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہے۔ کیا قوم کے موجودہ لیڈر اور حکمران ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مثبت طرح استعمال کر رہے ہیں یا ان کو اپنے مقاصد کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں؟

سیاسی وابستگی سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر ہم ملک کی نامی گرامی شخصیات پر نظر ڈالیں۔ تو ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی و مذہبی شخصیت موجود ہے ۔ ہر شخصیت اپنی جگہ نہ صرف اث رسوخ رکھتی ہے بلکہ بہت کچھ کر گزرنے اور تبدیل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ عمران خان، مولانا فضل الرحمان ، سراج الحق، شہباز شریف ، بلاول بھٹو، اسفندیار، آفتاب شیرپاوٗ اور ان جیسے اور بہت سے نام ہیں جو اپنی سیاسی بصیرت، سماجی مقام، اور انفرادی صلاحیتوں کی بنیاد پر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے معاشرے میں ہمارے ارد گرد با صلاحیت لوگوں کی کمی نہیں۔

تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اتنا زرخیز خطہ ہونے کے باوجود نہ تو ایک بڑی قوم بن کر ابھر سکیں ہیں اور نہ ہی ترقی کی راہ پر حقیقی معنوں میں گامزن ہیں۔ بہت سے وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی وجہ ہمارے نوجوانوں طبقے کی سیاسی ، سماجی معاشی اور مذہبی امور میں اندھی تقلید ہے۔ہماری ایک نسل نے تحریک پاکستان کے لئے جدوجہد کی، دوسری نسل نے اس کی بقا کی جنگ لڑی اور ہماری موجودہ نسل اپنے مستقبل کے استحکام کی جنگ لڑ رہی ہے ۔

لیکن اس جنگ کو لڑنے کے لئے ویژن کی ضرورت ہے ۔ اور اگر ویژن کی تعریف کی جائے تو اس سے مراد ایک ایسی حکمت عملی ترتیب دینا ہے جو اگلے سو سال کے سیاسی و معاشی حالات کو دیکھ کر بنائی جائے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفو ظ نہیں رہے گا۔ اس کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان اندھی تقلید کی بجائے حقیقت کی جانچ کرنے کی کوشش کرے۔

عمران خان کی یوتھ پاور کی صلاحیت کو خیبر پختونخوا کی شرح خواندگی بڑھانے اور کرپشن روکنے کے لئے استعمال کرنا ہو گا ۔ اور کرپشن روکنے کا یہ عمل اپنے گھر، دفتر اور پھر اداروں تک محیط ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن کی مذہبی و سیاسی طاقت کو استعمال میں لاتے ہوئے قبائلی علاقہ جات سمیت وہ سارے علاقے جو ان کے اثر رسوخ میں ہیں ۔ وہاں پر امن کی آگہی اور قیام قائم کرتے ہوئے سیاحت کو فروغ دینا ہو گا۔ ہمیں امیر مقام ، سراج الحق کی صلاحیتوں اور اثر کو بروئے کار لاتے ہوئے سوات ، دیر اور مالاکنڈ میں بجلی کی فراہمی ، انفراسٹکچر کی بہتری اور امن کے قیام کو یقینی بنا سکتے ہیں ۔ اس عمل سے یہ جنت نظیر وادیاں سیاحوں کے لئے کھل جائیں گی۔

میرا مسئلہ یہ نہیں کہ وزیر اعظم ، صدر ، آرمی چیف یا چیف جسٹس کون ہونا چاہیے۔ میرا مسئلہ میری بنیادی ضرورتیں ہیں اور میرا اسلامی تشخص ہیں۔
یہ سارا کچھ نوجوان نسل نے طے کرنا ہے کہ کیا وہ شخصیت پرستی کے قائل ہیں ،سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اندھی تقلید کرتے رہیں گے۔ یا پھر تعصب و عناد اور اندھی تقلید کو چھوڑ کر خود میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے۔

کیا نوجوان اس کے لئے تیار ہیں کہ وہ شخصیات کو چھوڑ کر نظریات کو اپنائیں ۔ ہر سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات کے وہ اقدامات جو ملک و قوم کے لئے کار آمد ہیں ۔ ان میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ہر کوئی اپنا کردار متعین کرتے ہوئے انفرادی و اجتماعی طور پر مثبت سوچ کے ساتھ کام کا آغاز کریں۔ یہی وقت کی ضرورت ہے ۔
لیکن اب سوال یہی یہی ہے کہ کیا نوجوان خود کو اس کام کے لئے تیار کر پائیں گے؟
علامہ اقبال نے فرمایا تھا
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے