شمالی کوریا بحرالکاہل میں امریکی جزیرے گوام پر میزائل حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اس پس منظر میں شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ ان (Kim Jong Un)امریکی رویوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔پیانگ یانگ اور واشنگٹن کے مابین شمالی کوریا کے متنازعہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے الفاظ کی جنگ میں شدت آئی ہے جبکہ پچھلے ہفتے شمالی کوریا نے کہا تھا کہ وہ اگست کے وسط تک بحرالکاہل میں امریکی جزیرے گوام کے قریب چار میزائلوں کو داغنے کے قابل ہو جائے گا۔شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنے جوہری ہتھیار شمالی کوریا کے قریب لے آیا ہے اور اگر وہ یہ ہتھیار نہیں ہٹاتا تو دونوں ملکوں میں عسکری تصادم نا گزیر ہو جائے گا۔
دوسری طرف امریکی سیکرٹری دفاع جیمز میٹس نے خبردار کیاہے شمالی کوریا کا کوئی بھی اشتعال انگیز اقدام دونوں ملکوں کے درمیان مکمل جنگ میں بدل سکتا ہے۔ اس صورتحال میں شمالی کوریا کے پڑوسی جنوبی کوریا نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس بڑھتے ہوئے تنازع کو سفارتی طور پر حل کرنے کی کوشش کرے۔شمالی کوریا کا روائیتی ساتھی چین بھی دونوں ملکوں کو ضبط سے کام لینے کی تلقین کر رہا ہے۔چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام متعلقہ فریقوں کو ایسے الفاظ اور افعال کو فوری طور پر بند کر دینا چاہئے جس سے حالات مزید خراب ہو نے کا اندیشہ ہو۔
شمالی کوریا اور امریکہ کے تعلقات 1950-53میں ہونے والی کوریاکی جنگ کے وقت سے خراب ہیں جب شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کیا اور اس موقع پر امریکہ نے جنوبی کوریا کی مدد کی جبکہ چین اور روس نے شمالی کوریا کی حمائیت کی۔ تاریخی اعتبار سے شمالی کوریا کمیونسٹوں جبکہ جنوبی کوریا سرمایہ دارانہ نظام کے حامی امریکہ کے زیر اثر رہا ہے۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں ایک ہی نسل اور عقائد کو ماننے والے لوگ رہتے ہیں لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست نے دونوں ملکوں کو نہ صرف تقسیم کر دیا ہے بلکہ بہت سے انسانی المیوں کو بھی جنم دیا ہے کیونکہ منقسم خاندان دونوں طرف آباد ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کا حامی ہونے کی وجہ سے جنوبی کوریا کو مغرب سے وسیع امداد اور سرمایہ کاری ملی جسے سے جنوبی کوریا نے اپنی معیشت کو ترقی یافتہ ممالک کی خطوط پر استوار کیا جبکہ دوسری طرف انتہا پسندانہ رویوں کی بدولت شمالی کوریا بین الاقوامی پابندیوں کا شکار چلا آرہا ہے ۔1910سے لے کر دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک کوریا پر جاپان کا تسلط رہا جب اگست 1945میں روس نے جاپان پر حملہ کر دیا اور امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں شمالی کوریا کو آزاد کرا لیا جبکہ جنوبی کوریا امریکہ کے زیر تسلط آگیا۔ یوں ایک ہی قوم اور خطے کے لوگوں کا اتحاد عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔
شمالی کوریا کی میزائل اور ایٹمی صلاحیت کے باعث سابق امریکی صدر جارج بش نے اس ریاست کو لیبیا، افغانستان، ایران اور عراق کے ساتھ برائی کا محور(axis of evil) قرار دیا تھا۔ امریکہ ا ور شمالی کوریا کے درمیان روائیتی سفارتی روابط نہیں ہیں اور ضرورت پڑنے پر شمالی کوریا میں سویڈن کے سفارت خانے کے ذریعے امریکی اپنے معاملات چلاتے ہیں کیونکہ امریکی جنوبی کوریا کو ہی پورے کوریا کا نمائندہ تسلیم کرتے ہیں جس پر شمالی کوریا کو اعتراض ہے ۔جبکہ امریکی فوجیں کوریا کی جنگ کے بعد سے آج تک جنوبی کوریا میں موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
2015 میں ہونے والے گیلپ کے سالانہ عالمی سروے کے مطابق صرف نو فیصد امریکی شمالی کوریا کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں ۔بی بی سی ورلڈ پول کے ایک سروے کے مطابق صرف چار فیصد امریکی شمالی کوریا کے امریکہ مخالف اقدامات کے حامی ہیں جو شمالی کے بارے میں دنیا میں شرح کے اعتبار سے سب سے منفی رائے ہے۔شمالی کوریا میں بھی اتنے ہی امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔انجلینا جولی کی فلم سالٹ اور ہالی ووڈ کی دیگر بہت سی فلموں میں بھی شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
شمالی کوریا کی آبادی اڑھائی کروڑ ہے جبکہ یہ ایک لاکھ بیس ہزار پانچ سو چالیس مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا چھوٹا سا ملک ہے جہاں ایک ہی پارٹی کی آمرانہ حکومت چلی آرہی ہے ۔اپنی جنگی ترجیحات کی وجہ سے یہ ایک انتہائی غریب ملک ہے جہاں فی کس سالانہ آمدنی محض 1000 ڈالر سالانہ سے بھی کم ہے جبکہ جنوبی کوریائی باشندوں کی فی کس سالانہ آمدنی تیس ہزار ڈالر ہے۔
دوسری طرف جنوبی کوریادنیا کی گیارھویں بڑی معیشت ہے اور اس کے1500بلین ڈالر جی ڈی پی کے مقابلے میں شمالی کوریا کی جی ڈی پی محض 25بلین ڈالر ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں شمالی کوریا میں ہوتی ہیں۔شمالی کوریا کی ساری آبادی ریاست اور برسراقتدار پارٹی کے سخت کنٹرول میں ہے ۔روزگار کا حصول سیاسی وابستگی سے مشروط ہے جبکہ شمالی کوریا کے شہری اپنی حکومت کی اجازت کے بغیر دیگر ممالک میں آزادنہ سفر تک نہیں کر سکتے۔یہ چھوٹا سا ملک 80 انفنٹری ڈویژنز پر مشتمل بارہ لاکھ فوج رکھتا ہے ۔ شمالی کوریا کے پاس تیس آرٹلری بریگیڈ،25سپیشل جنگی بریگیڈ، بیس سریع الحرکت بریگیڈ،دس ٹینک بریگیڈ جبکہ سات ٹینک رجمنٹ ہیں۔
شمالی کوریا کے پاس دنیا کی سب سے بڑی سپیشل فورس اور سب میرین پر مشتمل سب سے بڑا جنگی بحری بیڑہ ہے۔وسیع روایتی جنگی ہتھیاروں کے علاوہ یہ ایٹمی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کے پاس دس پلاٹونیم وارہیڈز موجود ہیں۔میزائل ٹیکنالوجی میں شمالی کوریا نے بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی بھی شمالی کوریا کی مرہون منت ہے۔ شمالی کوریا کے پاس گیار ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل موجود ہیں اور امریکہ ویورپ ا س کے نشانے پر ہیں۔کیمیائی اور بیالوجیکل ہتھیاربھی وافر تعداد میں میں موجود ہیں۔ اسلحہ ، گولہ بارود اور میزائلوں کی بہتات کے باعث کہا جاسکتا ہے کہ یہ ملک بارود کے دہانے پر ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا اپنے عوام کی کسمپرسی اور غربت کی قیمت پر جنگی جنون کو ہوا دینا درست عمل ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شمالی کوریا کی اشرافیہ کا مفاد اسی جنگی جنون کو قائم رکھنے میں ہے۔اس سلسلے میں پاکستان اور شمالی کوریا کی اشرافیہ میں یہ ایک قدر مشترک ہے کہ جس طرح یہاں کی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے بھارت ، امریکہ اور کسی دور میں روس کو ہوا بنا کے ہمیں صاف پانی، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے بالکل ایسے ہی وہاں کی حکمران اشرافیہ نے بھی اڑھائی کروڑ عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔
جنوبی کوریا ،جاپان اور امریکہ کووہاں ایک خوف بنا کر بیچا جاتا ہے اور اس کی آڑ میں شروع سے ایک ہی خاندان اور پارٹی کی حکومت عوام پر مسلط ہے۔ تہذیبوں کا تصادم نامی مشہور کتاب کے مصنف سیموئل پی ایس ہنگٹن نے لکھا تھا کہ امریکہ کبھی کسی ایٹمی قوت کے حامل ملک پر حملہ نہیں کرتا ،البتہ دیگر ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے لیکن شمالی کوریا اندرونی طور پر مضبوط ہے کیونکہ عوام پر حکومت کی گرفت ہے اور یہ مضبوط فوجی صلاحیت بھی رکھتا ہے لہٰذا شام،لیبیا،عراق اور افغانستان کے برعکس شمالی کوریا امریکہ کیلئے لوہے کا چنا ثابت ہو سکتا ہے ۔
شمالی کوریا کی ایٹمی اور بیلسٹک میزائلوں کی صلاحیت امریکہ ، یورپ، جنوبی کوریا اور جاپان کیلئے در د سر بنی ہوئی ہے وگرنہ شائد شمالی کوریا کو بہت تابع کیا جاچکا ہوتا ۔امریکہ اور شمالی کوریا دونوں ملکوں کی قیادتیں جوکرز کے ہاتھ میں ہیں۔جو بھی ہو عالمی چودھری ہونے کے ناطے بگاڑ کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا چیونٹی ہاتھی کی سونڈ میں داخل ہونے کو تیار ہے یا یہ شمالی کورین راہنماؤں کی اپنے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی ایک نئی چال ہے۔