حج، جج ،پھانسی اور تاریخ‌کاسبق

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے جب احتساب بیورو انکوائری شروع کرتاہے تو اچھے اچھوں کو حج یاد آجاتا ہے ۔گناہ دھلوانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں ۔حرام مال واپس کرنا بھی ثواب ہے ۔

وہ کروڑوں روپے کے غبن میں ملوث اہلکار کی طرف سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کر رہے تھے جس میں استدعا کی گئی تھی نیب کی طرف سے اس کے خلاف انکوائری شروع کرنے سے پہلے حج پر جانے کی اجازت دی جائے ۔ساری قوم یا گروہ ،فردکسی کا بھی حق کھا کر نہ صرف کرپشن بلکہ کسی بھی طرح کا حق مار کر حج پر چلے جانا کیا معنی رکھتا ہے یہ واقعتاً نازک معاملہ ہے جس پر علمائے حق ہی روشنی ڈال سکتے ہیں اور قوم کی رہنمائی کرنی چاہئیے ۔

بڑے بڑے محلات پلازے فیکٹریوں کے دروازوں کے اوپر ’’ھذا من فضل ربی‘‘لکھا ہوتا ہے ۔راتوں رات یہ سب کچھ کیسے تعمیر ہوئے ۔بینک ،بیلنس اثاثے کیسے بن گئے ۔دیکھنے والا۔سننے والا حیران پریشان رہ جاتا ہے ۔خصوصاً سرکاری منصب پر آنے سے پہلے کیا تھے اب کیا ہیں جب تک صحیح معنوں میں اوپر سے نیچے تک بے لاگ احتساب نہیں ہوگا سب دعوے اعلانات بے کار ثابت ہوتے رہیں گے مگر پکڑے جانے پر حج کیلئے تیاری کرنا کعبے کے پھیرے لگانے سے معافی مل جاتی ہے علماء کو قوم کی رہنمائی کرنی چاہئیے ۔ایک اور قتل کے مقدمے میں سپریم کورٹ پاکستان نے ملزم کو پھانسی سمیت سزاؤں کو ختم کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیاہے جو چار پانچ سال سے جھوٹے الزام میں جیل میں سڑ رہا تھا اور ماتحت عدالتوں سے پھانسی کی سزا دیدی گئی تھی ۔

سپریم کورٹ نے بے گناہ کورہا کرنے کا حکم سناتے ہوئے کہا جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی عمر قید سزا ہونی چاہئیے اس طرح کے کیس پہلے بھی سامنے آئے ۔پھانسی کا ملزم جیل میں مر گیا اور فیصلہ آنے پر ثابت ہوا وہ گناہگار نہ تھا ۔کاش کے انگریز کا وہ قانون جو یہاں غلاموں کیلئے نافذ کیا گیا تھا اس کی جانے کے بعد بدل کر آزاد قوموں والا قانون لایا جاتا تو شاید بے گناہ جیلوں میں سڑتے ۔نہ پھانسی چڑھتے ۔چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ساری خرابیوں کی زبردست تشخیص کی ۔انگریز چلا گیا مگر اس کے کالے سانپ یہاں ہی دھندناتے ہیں ۔

درجہ بالا دو مقدمات ماہ آزادی اگست میں اعلیٰ عدالتوں کے اندراور باہر سارے نظام ہی نہیں بلکہ قوم کی زبوں حالی کی عکاسی کرتے ہیں ۔جی ٹی روڈ پر سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی نااہلی کے فیصلہ کے خلاف ریلی لے کر لوگوں سے پوچھ رہے تھے کیا ان کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ ٹھیک ہے ۔اس کے خلاف میرا ساتھ دو گے ۔قدرت کا نظام اور انصاف اتنا عظیم تر ہے ۔

ملک کے اقتدار کا مالک شہنشاہ طبیعت اداوں ناز وانداز والا جی ٹی روڈ پر پھر رہا تھا اور عام آدمی سے انصاف مانگ رہا تھاجس کے ساتھ ایک آمر کے بیٹے نے ملاقات کی اس کے نامزد کردہ وزیر اعظم کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے میں پیش پیش تھا مگر جی ٹی روڈ کے خطابات پر یہ بھی چیخ اُٹھا نواز شریف میرے باپ کو معاف رکھو تم نے اس کی حکومت میں سیاست کا آغاز کیا جو کچھ ہو اس کی بدولت ہو۔مگر مسلم لیگ کے دو وزیر اعظم سمیت پیپلز پارٹی کے چار وزرائے اعظم کو فارغ کرانے میں پیش پیش رہنے والے نواز شریف کو آج سب کچھ غلط نظر آرہا ہے وہ بھٹو ،بینظیر کی باتیں کر رہے ہیں قدرت کے اصول مکافات عمل اور انصاف پر قربان جائیں ۔

تاریخ کے فیصلے کی نظیر ہی نہیں ہوتی۔ایک وہ وزیر اعظم جسے پھانسی پر لٹکا کر لوگوں کو جنازہ بھی نہیں پڑھنے دیا گیا وہ خود بولا نہ آہ و فریاد کی ۔پھانسی کا پھندا چوم کر تہہ خاک ہو گیامگر ساری دنیا خلق خدا بولی ۔جج بھی بولے بھٹو کا قتل ظلم تھا اور ظلم کرنے والے آمر کے سب سے بڑے جانشین و مخالف بول رہے ہیں ۔بھٹو کا قتل ناانصافی تھا ۔بھٹو آج بھی زندہ نظر آرہا ہے مگر آمر نے جو پودے لگائے تھے وہ درخت بن کر اس کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے ہیں ۔اس کی اولاد بول اُٹھی ہے کہ کم ازکم تم تو ہمارے باپ کو معاف رکھو مگر تاریخ کا انتقام کتنا عظیم الشان ہے یہ نظام قدرت کے بالاتر اصول ہے ۔

کیا معلوم نواز شریف سپریم کورٹ میں ہی چلے جائیں اور درخواست کریں بھٹو پھانسی کیس کو ری اوپن کر کے انصاف کیا جائے مگر کیا کریں وہ تو اپنے کیس کے فیصلے میں ریلی سے مایوس ہو کر نظر ثانی کی اپیل دائر کر چکے ہیں کیونکہ کرپشن کر کے حج اور چھ وزرائے اعظم کو فارغ کروا کر اپنی باری پر انقلاب کا نعرہ لگانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا ہے ۔جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔یہی قدرت کا کمال ہے اور تاریخ کا سبق ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے