اوٹ پٹانگ دور اور میر تقی میر کی اوٹ پٹانگ غزل

ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ایک اوٹ پٹانگ عہد میں جی رہے ہیں۔ ایک طرف شمالی کوریا کے کِم جونگ ہیں اور دوسری طرف شمالی امریکہ کے ٹرمپ۔ ان کے بیچ میں ہم۔ ان دونوں کو اوٹ پٹانگیاں مار نے میں کمال حاصل ہے۔ ایک عرصے تک کم جونگ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ لیکن اب کم جونگ خوشی سے جامے میں نہیں سما رہے کہ دوسرے لیڈر بھی اوٹ پٹانگ ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان پر بھی دباو بڑھ رہا ہے اورپاکستان مقدور بھر کوشش بھی کر رہا ہے۔ لیکن پاکستان کا حالیہ "کیوں نکالا” والا آئیٹم ہٹ نہیں ہوا۔ حالانکہ میر تقی میر نے بہت پہلے اپنی اوٹ پٹانگ غزل میں ٹرمپ کی نشانیاں بتا دی تھیں۔ فی زمانہ جو بات لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے یا جس کی عقلی توجیہ نہ کر پا ئیں اسے اوٹ پٹانگ کہ کر رد کر دیتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ ہم اوٹ پٹانگ دنیا میں اور بھی پس ماندہ ہوتے جارہے ہیں۔ آج کل مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ ایک تو استعمال میں اسراف اور ہیر پھیر کی وجہ سے عقل بہت کم رہ گئی ہے اس لئے اکثر معاملات میں عقل ساتھ نہیں دے رہی یا اوٹ پٹانگ زیادہ ہی اوٹ پٹانگ ہو گیا ہے۔ اوٹ پٹانگ کے بارے میں اس عہد میں تین رویے شدت پکڑ رہے ہیں۔ ایک تو اوٹ پٹانگ کو عقل کے تابع رکھنے کی خواہش میں انتہا کی مایوسی کا رویہ پھیل رہا ہے جس کا انجام خود کشی ہے۔ نوجوان نسل اس رجحان کو تیزی سے اپنا رہی ہے۔ سیاسی طالع آزما اس صورت حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور خود کشوں کو ہتھیارکے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ دوسرا رویہ جو زور پکڑ رہا ہےوہ اوٹ پٹانگ کو عقلی کی بجائے مذہبی درجہ دیتا ہے۔ اس سے اہل مذہب کو خوشی تو ہے کہ ان کے حلقے میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن پریشانی بھی۔ اس طرح مذہب غیر مذہبی اور پر اسرار ہو تا جا رہا ہے۔ کچھ سائنس دان کائنات کو معقول اسباب کی بجائے اتفاقات یعنی بگ بینگ کی پیداوار یعنی اوٹ پٹانگ سمجھتے ہیں۔ اکثر سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ اس رویے سے متاثر ہوکر سائنس کے طلبا مذہب کی طرف واپس جارہے ہیں۔ تیسرا رویہ اوٹ پٹانگ کو فطری سمجھ کر قبول کرنے کا ہے۔ دنیا میں سب معقول نہیں ہوتا، بہت کچھ عقل میں نہیں آ سکتا لیکن زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ اہل مذہب اس رویے کو بھی خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔ میر کی غزل اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے۔

میر تقی میر (۱۷۶۲۔ ۱۸۱۰) کا زمانہ شورشوں، فتنہ و فساد کا دور تھا۔ ایک دور مر رہا تھا اور دوسرے کی پیدائش میں کچھ پیچید گیاں پیش آرہی تھیں۔ اس بے یقینی کی کیفیت میں لوگ اوٹ پٹانگ سوچنے لگے تھے۔ ہندوستان میں مغلوں کا نام جو اب تک حکمران رہے تھے تھے ازبک سے بگاڑ کر اُجبک بمعنی گاودی، انگھڑ رکھ دیا گیا تھا۔ یہ سیاسی نفرت ایسی ہی تھی جیسے عرب دوسروں کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے۔ جیسے فارسی میں ہندو کالے کو کہتے تھے حالانکہ سارے ہندوکالے نہیں ہوتے جیسے غیر عرب گونگے نہیں ہوتے۔ اسی طرح میر جس زبان میں شاعری کرتے تھے اس کا بھی تمسخر اڑایا جاتا تھا۔ کوئی اسے زنانخانے کی زبان کہتا ، کوئی پوربی اور کوئی ریختہ اور کوئی اردوئے معلی، اردو ترکی لفظ اورت یا ارد سے ہےجو لشکری کے لئے بولا جاتا تھا۔ ہر لشکری کم عقل نہیں ہوتا لیکن نفرت بھی تو کم عقل ہوتی ہے۔ دلی میں اسے اردوئے معلی کا نام دیا یعنی لشکر شاہی کی زبان۔ ریختہ گری پڑی چیز کو کہتے تھے۔ میر نے ریختہ کو ہی چنا۔ اور یوں ریختہ کے استاد کہلائے۔

ہمارے خیال میں میر تقی میر کی ایک غزل جس میں میر نےاوٹ پٹانگ کا ذکر بہت مثبت انداز میں کیا ہے، آج کے دور میں ہماری بہتر رہنمائی کر سکتی ہے۔ یہ غزل پوری ہی اہم اور اوٹ پٹانگ ہے لیکن میر نے اسے نظم کی بجائے غزل کی صنف میں پیش کیا ہے جو بے ربطی کی کی خصوصیت کی بنا پر بجائے خود شاعری کی اوٹ پٹانگ صنف ہے ۔ اس میں ہر شعر مکمل طور پر آزاد ہے۔ ہم پوری غزل کی بجائے چند اوٹ پٹانگ اشعارکی شرح پیش کر رہے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا اور پاکستان اس اوٹ پٹانگ دنیا میں اپنا صحیح کردار ادا کر سکے گا۔

غزل

جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ

تب سے لٹتی ہے ہند چاروں دانگ

الفاظ: خط: رخسار پر داڑھی کا نمودار ہونا، سیاہ خال: کالا تل، نظر بد سے بچانے کے لئے چہرے پر کاجل سے نشان، تھانگ: جگہ، گھر، پتا، چوروں کا گھر،چوروں کی کمین گاہ ، کھوج ، سراغ، تھانہ ۔ تھانگ لگانا: چوری کا پتا لگانا، چوروں کی مدد کرنا، پناہ دینا۔ ہند: شمالی ہندوستان، دانگ: سمت، چار دانگ : چاروں طرف۔

مطلب

میر اپنے زمانے کی بد نظمی اور بد عنوانی کا نقشہ کھینچتے ہوے لکھتے ہیں کہ جب سے سیاہ تل کی جگہ داڑھی کا رواج ہوا ہے ھندوستانی قوم لٹیروں میں گھر گئی ہے۔

شرح

یہ شعر بظاہر بالکل مہمل ہے کیونکہ خال اور خط صنفی امتیاز کی علامت تھے۔ مردوں کے چہرے پر بالوں کے اُگنے کو مسیں بھیگنا، سبزے کا آغاز، خط آنا، خط بھر آنا وغیرہ کے محبت بھرےاستعاروں سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان بالوں کی اصلاح کو خط بنانا یا خط بنوانا کہا جاتا تھا۔ شعر میں بظاہر یہ کہا گیا ہے کہ سیاہ تل کی جگہ داڑھی کا رواج ہو گیا تھا لیکن یہ صحیح نہیں لگتا۔ فطرت نے عورت کو داڑھی کی نعمت سے نہیں نوازا۔ اسی لئے اس زمانے میں خواتین اس کمی کو دور کرنے کے لئے رخسار پرکاجل سے نقطہ کا نشان بناتیں۔ ایک اور شاعر نے اس نشان کو زحل کا نام دیا ہے۔

خال سیہ بناتا ہے رخسار پر وہ ماہ

کیا ان دنوں زحل کا ستارہ بلند ہے (آتش)

زحل اس عہد کے علم فلکیات کی روسے نحوست کا ستارہ سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے اس کا رنگ بھی سیاہ خیال کیا جاتا تھا ۔ نظربد سے بچنے کے لئے اس کالے نشان کی بہت اہمیت تھی۔ ایران اور ازبکستان میں جس خاتون کے چہرے پر سیاہ تل ہو اسے پا کر تو بندہ خود کواتنا خوش قسمت سمجھتا تھا کہ بقول حافظ سیاہ تل پر سمر قند اور بخارا بھی قربان۔

اصل میں میر کا مطلب یہ ہے کہ سیاہ تل اور داڑھی مرد اور عورت میں صنفی امتیاز کی علامت ہیں۔ میر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ جب سے مر د و زن کی تمیز ختم ہوئی ہے عورتوں کی جگہ مردوں نے لی ہے اور ملک میں بد امنی پھیل رہی ہے۔ اسی عہد کے ایک شاعر نے اس صورت حال کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

ٹھہرا ہے کوئی چور، لگاتا ہے کوئی تھانگ

َملتا ہے کوئی پوست کو، چھانے ہے کوئی بھانگ (نظیر)

ظاہر ہے جب مرد حضرات کے یہ مشاغل ہوں تو بد امنی تو ہوگی ہی۔ اکبر الہ آبادی اس بدحالی کا ذمہ دار بالعموم گوروں کو اوربالخصوص لارڈ کرزن کو ٹھہراتے تھے۔ ان کی تحقیق کے مطابق

کر دیا کرزن نے زن مردوں کی صورت دیکھیے

آبرو چہرے کی سب فیشن بنا کر پونچھ لی

سچ یہ ہے انسان کو یورپ نے ہلکا کردیا

ابتدا داڑھی سے کی اور انتہا میں مونچھ لی (اکبر)

اکبر اور میر دونوں مرد و زن کے امتیاز کی بات کرتے تھے لیکن اکبر کو داڑھی منڈے مردوں سے واسطہ تھا۔ وہ گوروں کو گوریاں سمجھ بیٹھتے۔اکثر اس میں غلطی پر پشیمانی کا سامنا ہوا، اور یورپ سے قطع تعلق کرکے شتابی سے فارغ ہوے۔ میر کو اس کے برعکس یہ شکایت تھی کہ مرد نے عورت کی جگہ تو لی لیکن ایسے جیسے چور تھانگ لگاتے ہیں۔ یہ استعارہ گوروں کے لئے تھا جو عورت کی شکل بنا کرآئے اور دلی کو لوٹ کھسوٹ کر ویران کر ڈالا۔

بات ان کی چلی ہی جاتی ہے

ہے مگر عوج بن عنق کی ٹانگ

الفاظ

مگر: شاید، عوج بن عنق: عہد قدیم کا بہت ہی لمبے قد کا شخص۔ بائبل کی اساطیری شخصیت۔

مطلب

بات محبوب کی ہوتی ہے اس لئے خواہ مخواہ لمبی ہوتی جاتی ہے گویا عوج بن عنق کی ٹانگ ہو۔

شرح

شاعروں نے اس مضمون کو طرح طرح سے باندھا ہے۔ کسی نے کہا قصہ مزے دار تھا اس لئے لمبا ہو گیا۔ کسی نے کہا تمنا مختصر ہے مگر تمہید طویل۔ میر نے اس مضمون کو خرافات سے ملاکر اوٹ پٹانگ بنا دیا۔ عوج بن عنق دنیا کا لمبا ترین اساطیری انسان تها. کتابوں میں اس کا قد سینکڑوں گز بتایا جاتا ہے۔ بہت ہی زیادہ لمبی عمر پائی۔ حضرت آدم کے زمانے میں پیدا ہوا ۔ خیال ہے کہ آدم کا پوتا تھا اور حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام پر بھی ایمان نہیں لایا۔ طوفان نوح میں عوج بن عنق کے علاوہ کوئی بھی غرق ہونے سے نہ بچا ۔ یہ اس لئے بچ گیا کہ سیلاب کا پانی اس کی کمر تک تھا۔ اس کی نجات کا سبب یہ بنا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کے لئے ساگوان کی لکڑی کی ضرورت تھی مگر اس کو اٹھا کر لانا ممکن نہ تھا عوج وہ لکڑی شام سے اٹھا کر لاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کو قبول کیا اور اسے غرق ہونے سے بچا لیا۔

لمبے قد اور مضبوط جسم کی وجہ سے ہر ایک سے پنگے لیتا تھا۔ لوگ بھی اس سے ڈرتے تھے۔ بنی اسرائیل تو کمزوروں کے سوا کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاتے ۔ جب عوج بن عنق کی قوم سے لڑائی کا حکم ملا تو بنی اسرائیل نے صاف انکار کردیا۔ کہا تم اور تمہارا رب جا کر اس سے لڑو ۔ ہم تو القاعدہ میں شامل ہو چکے ہیں۔ حضرت موسی نکلے تو عوج بن عنق نے ٹھٹھا کیا۔ حضرت موسی نے اپنا عصا اس کے ٹخنوں پر مارا تو وہ بے جان ہو کر گر پڑا۔

علمائے اسلام نے اس قصے کو خرافات کہ کر رد کردیا۔ لیکن قصہ لذیذ تھا اس لئے تفسیر اور تاریخ میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ ان دنوں فلسطین میں بحر مردار میں ایک عظیم الجثہ انسان کا ڈھانچا ملا ہے۔ خیال ہے کہ یہ عوج بن عنق کا ہی ہے۔ لیکن امریکہ نے اسرائیل کو ہدایت کی ہے کہ اسے راز میں رکھا جائے ورنہ ٹرمپ کا یہ دعوی کہ وہ پہلا اوٹ پٹانگ انسان ہے صحیح نہیں رہے گا۔

میر نے عوج بن عنق کو خرافات کی مثال کے طور پر بیان کیا ہے۔ ایک اور شعر میں اس کی خصوصیات یوں واضح کی ہیں کہ اس کی شکل دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی گردن اس کی ٹانگ میں لگی ہے جس کی وجہ سے اس کا قد اتنا لمبا نظر آتا ہے۔ حضرت موسی کے قصے سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس انسان کی عقل اس کے ٹخنوں میں ہو اس کو شکست دینے کے لئے اس کی گردن کو نہیں ٹخنوں کو نشانہ بنانا چاہیے۔ میر نے یہ راز افشا کرنے کے لئے عربی لفظ جید کا انتخاب کیا ہے جو عربی میں دشمن کی گردن کو کہتے ہیں۔ میر کہتے ہیں۔

ہیئت اس کی مُضحِکہ ہے سوانگ ہے

جیدِ عوج ابنِ عنق کی ٹانگ ہے (میر)

بن جو کچھ بن سکے جوانی میں

رات تھوڑی ہے ، اور بہت ہے سانگ

الفاظ: سانگ: سوانگ، ڈرامہ، کھیل

مطلب

اگر کچھ بننا ہے تو جوانی میں ہی بن جاؤ۔ رات چھوٹی کم ہے اور ڈراما طویل ۔

شرح

اوٹ پٹانگی کے لئے جوانی میں ہی موقع ہے۔ جو کرنا ہے ابھی کرو، جو بننا ہے ابھی بنو۔ کیونکہ اب راتیں چھوٹی اور دن لمبے ہیں۔ انتظار کیا تو بڑھاپے کی راتیں لمبی اور ڈرامہ بازی زیادہ ہو جاتی ہے۔اصل پیغام یہ ہے کہ زندگی ایک کھیل ہے۔ ایک اوٹ پٹانگ کھیل جو جوانی میں ہی کھیلا جا سکتا ہے۔ شاعروں نے تو عمر دراز کو چار دن کہ کر شکایت کی ہے۔ میر کا کہنا ہے کہ یہ شکایت وہی کرتے ہیں جو جوانی میں سرخرو ہو جائیں۔ جو ایسا نہ کر پائیں ان کا حال کچھ اور ہوتا ہے۔

یہ مہلتِ کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر

مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے (میر)

عشق کا شور کوئی چھپتا ہے

نالہ عندلیب ہے گل بانگ

الفاظ: نالہ: رونا دھونا، شکایت، عندلیب: بلبل، گل: پھول، بانگ: آواز، اذان

مطلب

عشق چھپ نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ شور کا نام ہے۔ بلبل کا رونا دھونا بند ہو تو پھول کی آواز بلند ہو جاتی ہے۔

شرح

یہ اس غزل کا سب سے سادہ شعر ہے لیکن اوٹ پٹانگ غزل کا حصہ بناکر میر نے عشق کی کئی تہیں کھول دی ہیں۔ شاعروں نے عام طور پر عندلیب اور گل دونوں کی آہ و زاری کا ذکر کیا ہے لیکن میر نے نالہ اور بانگ کو آمنے سامنے کرکے عندلیب کو خاموش اور گھٹ گھٹ کر رونے والی بتایا ہے اور گل کی خاموشی کو آواز دی ہے۔ آواز بھی وہ جو سوئے ہووں کو جگا تی ہے۔ اس شعر میں ایک تو عشق کا وہ پہلو ہے جو میاں بیوی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس میں دو زمانے ہیں ایک وہ جس میں عندلیب یعنی بیوی اپنی قسمت کو روتی رہتی ہے۔ اور دوسرا وہ جب گل یعنی بچے بانگیں دینے لگتے ہیں۔ میاں بیچارہ اس عشق کو چھپانے کی لاکھ کوشش کرے لیکن پانامہ کا یہ شور چھپائے نہیں چھپتا۔

اس عشق کی دوسری تہ عشق کا اوٹ پٹانگ ہونا ہے۔ عقل لب بام محو تماشا کھڑی رہ جاتی ہے اور عشق بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے۔ عندلیب عقل کی علامت ہے جسے شک و شبہ اور نالہ و شکایت سے فرصت نہیں۔ گل عشق کی علامت ہے جو اذان کی گواہی کے بعد عشق کے طوفانی شور میں پتی پتی بکھر جاتا ہے۔

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا (میر)

اس عشق کی ایک اور اوٹ پٹانگ تہ عشق اور زندگی کا رنج و الم اور حزن و یاس سے رشتہ ہے۔ صبح غم سے شروع ہوتی ہے تو شام خون نابہ مدام کی خبر لاتی ہے۔

ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے

خون نابہ کشی مدام کی ہے میں نے (میر)

عشق کے شور کی ایک تہ وہ ہے جو زندگی کو نظر بھر دیکھنے نہیں دیتی۔

سرسری تم جہان سے گذرے

ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا (میر)

زندگی صرف ان کے لئے واہمہ ہے جو اس پر اعتبار نہیں کرتے۔

یہ توہّم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا (میر)

میر کے ہاں عشق کی پاتال دیوانگی اور جنون ہے۔ ان کی شاعری دیوانگی کا مجموعہ دیوان ہے۔

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ میں نے

درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان ہوا (میر)

میں نے کیا اس غزل کو سہل کیا

قافیے ہی تھے اس کے اوٹ پٹانگ

الفاظ

اوٹ پٹانگ: مہمل، بے معنی، انمل، بےجوڑ، یاوہ گوئی، واہی، بعید از قیاس، بونگا۔

مطلب

اس غزل کو آسان بنانے میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ سارا کمال اوٹ پٹانگ قافیوں کا ہے۔

شرح

میر کے نقادوں نے عموماً اس غزل کو اوٹ پٹانگ سمجھ کر نظر انداز کردیا ہے۔ ان کی نگاہ میر کی زندگی میں رنج و الم، پے بہ پے صدمات اور ناکامیوں پر رہی۔ نتیجہ یہ کہ انہوں نے میر کو قنوطی شاعر اور ان کا نقطہ نظر حزنیہ قرار دیا۔ کچھ نے ان کی تنک مزاجی اور خود پسندی پر اکتفا کیا۔ ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر نفسیات نے تو انہیں صاف صاف پاگل قرار دے دیا۔ ہماری تحقیق کے مطابق ان میں سے کسی نے بھی اس غزل کی طرف توجہ نہیں دی۔

آج کی دنیا میں اوٹ پٹانگیت کو جو عزت اور مقام ملا ہے اس کی وجہ سے اس غزل میں جان پڑ گئی ہے۔ یہ اوٹ پٹانگ لوگ ہیں جو ساری دنیا کو اوٹ پٹانگ بنائے دے رہے ہیں۔

ہوا یوں ہے کہ انیسویں صدی میں ہمیں بتا یا گیا کہ انسان اور جانور میں فرق یہ ہے کہ جانور اوٹ پٹانگ سوچتے ہیں اور اوٹ پٹانگ جیتے ہیں ۔ انسان اپنی عقل کی وجہ سے ہر چیز کا سبب ڈھونڈ لیتا ہے۔ اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ یہ بات اس کے قابو میں ہے۔ سبب معنی بن جاتا ہے اور بے معنی بات اوٹ پٹانگ کہلاتی ہے۔

اس طرز فکر سے پتا تو یہ چلا کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر لفظ کا کوئی معنی ہو اور ہربات کا کوئی سبب ہو لیکن اوٹ پٹانگ کو وہ مقام نہ ملا جو اسے آج حاصل ہے۔ اوٹ پٹانگ اردو لفظ نہیں لیکن اردو لغت میں یہ جتلانے کے لئے شامل کیا گیا ہے کہ اس کے کوئی معنی نہیں۔ اسی پر بس نہیں ۔ اس لفظ کے معنی بیان کرنے کی بجائے جو گالیاں ذہن میں آسکتی ہیں وہ درج کرکے غصہ نکالا گیا ہے۔

ساری لغت کی کتابیں یہ ضرور بتاتی ہیں کہ یہ لفظ کونسی زبان کا ہے یا کن الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ اس لفظ کے بارے میں عجیب و غریب رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ صرف اوٹ کا بتایا گیا کہ یہ سنسکرت سے آیا ہے جس کے دو معنی ہیں ۔ اگر زبر زیر اور پیش کے بغیر ہو تو اس کے معنی پردہ، آڑ، اور حفاظت ہے۔اگر پیش ہو تو معنی کم عقل اور گاودی۔ اس میں بھی اختلاف ہے۔ کہیں اسے ت پڑھا جاتا ہے اور کہیں ٹ۔ اوت عام طور پر پیدائشی احمق کو کہا جاتا تھا۔ ھندووں میں اُوت ایسے شخص کی روح کو کہاجاتا تھا جو جوانی میں بن بیاہا مرجائے۔ اس کا بھوت لوگوں کو پریشان کرتا تھا۔ اس کی بد دعا سے بچنے کے لئے ہندو عورتیں شب برات کو اُوتوں کی نیاز دلوا تیں اور شب برات کو مسجدوں میں بھجواتیں۔ مسلمانوں میں منت سے مانگے بچے کو ایک مخصوص بزرگ کے مزار پر چڑھاوے کے طور پر پیش کردیا جاتا تھا۔ اس بچے کا سر چھوٹا رہتا تھا جس کی وجہ سے اسے بے عقل سمجھا جاتا تھا اور وہ صرف مزارات پر خدمت کے لئے رکھا جاتا۔ رنگین نے ایسے ہی ایک اُوت کے خیلا پن (حماقت) اور بللّاپن ( بلیلا، بے عقلی) کی شکایت کی ہے۔

مجھے زہر لگتا ہے خیلاپن اس کا

بللّا سا ہے یہ ترا اُوت خوجا (رنگیں)

اس کے بر عکس اسی لفظ کو اوٹ پٹانگ دنیا میں باپ بیٹے کے رشتے میں اتھل پتھل پر طنز کے لئے استعمال کیا ہے۔

باپ کو اس نے بنا رکھا ہے اُوت

ہیں کہاں ایسے سعادت مند پوت (میر)

اب شہر والے گاوں میں رہنے والوں کو گاودی، گنوار وغیرہ کہ کر کم عقل بتاتے ہیں تو ضروری نہیں وہ ایسے ہی ہوں۔ اکثر سیاسی نفرت بھی وجہ تسمیہ بن جاتی ہے۔ البتہ حیرت اس بات پر ہے کہ پٹانگ کے کوئی معنی نہیں بتائے گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اردو زبان میں مہمل کا ایک تابع بھی ہوتا ہے۔ تابع کی وفاداری بے سبب ہوتی ہے اس لئے اسے بذات خود کم عقل سمجھا جاتا ہے ۔ اور پٹانگ کو اوٹ کا تابع مہمل سمجھ کر اس کے معنی بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔

میر کی اس غزل میں عوج بن عنق کا حوالے، اس کی گردن ٹانگ میں لگی ہونے اور ٹخنے پر چوٹ سے مرنے کی کہانی سے تعلق پر غور کریں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اوت یا اوٹ کی عقل اگر گردن پر سر میں ہونے کی بجائے ٹانگ کے ٹخنے میں ہو تو اسے اوٹ پٹانگ کہا جاتا ہے۔

میر بندوں سے کام کب نکلا

مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ

الفاظ۔ : میر: میر تقی میر کا تخلص

مطلب

بندے کسی کا کام نہیں کر سکتے۔ جو کچھ مانگنا ہے، خدا سے مانگو۔

شرح

یہ اوٹ پٹانگ فلسفے کا مذہبی پہلو ہے۔ انسان اپنی کائنات سے خدا کو بے دخل کر کے اپنے جیسے انسانوں کو خدا ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ مذہب اور خدا کو غیر معقول بتاکر اوٹ پٹانگ تصور بتاتے ہیں لیکن ہر وہ چیز جو سمجھ میں نہ آئے اس کے وجود سے انکار کرنا اور اسے اوٹ پٹانگ کا نام دینے سے ایک لحاظ سے اوٹ پٹانگ کا وجود ثابت ہوجا تا ہے خواہ یہ وجود ذہنی ہی ہو۔ ٹرمپ اوٹ پٹانگ سہی لیکن اس کے وجود سے تو انکار نہیں۔

خوش ہیں دیوانگی میر سے سب

کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ (میر)

دیوانگی کو عقل سے سمجھا نہ جا سکے لیکن دیوانگی سے انکار بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔

دیوانگی سے اپنی ہے اب ساری بات خبط

افراط اشتیاق سے وہ مَت نہیں رہی

پیدا کہاں ہیں ایسے پرا گندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی (میر)

دیوانگی مانگنے سے بے نیازی سکھا تی ہے۔ لیکن مانگنا ہی ہے تو ان سے تو نہ مانگو جو خود دوسروں کے محتاج ہیں۔

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے