معتوب جغرافیہ، معلق جمہوریت اور مصلوب معیشت

ڈاکٹر نجیب اللہ احمد زئی نے میڈیسن میں رسمی تعلیم پائی تھی۔ سیاست کے شناور تھے، تجربہ کار منتظم تھے لیکن ان کی منفرد خوبی تاریخ پر ان کا عبور تھا۔ صاحب مطالعہ تھے۔ دن بھر میں درجنوں وفود کے ساتھ سینکڑوں فنجان قہوے کے نوش کرتے تھے اور پھر ایک جملے میں ساری بحث سمیٹ دیتے تھے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ افغانستان کی تاریخ بہت تابناک ہے۔ المیہ یہ ہے کہ افغان جغرافیہ بہت پیچیدہ ہے۔ کہنے کو ڈاکٹر نجیب اللہ نے ایک چلتا ہوا جملہ چست کیا تھا، حقیقت میں سیاسی دانش کا بہت بنیادی سوال مرتب کیا تھا۔ 27 ستمبر 1996 کو ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان کے بھائی کو کابل کے آریانہ چوک میں پھانسی دے دی گئی۔ یہ واقعات اس قدر اندوہناک تھے کہ انہیں دہرانا بھی اذیت سے خالی نہیں۔ اتفاق سے اس شام طالب علم پشاور کے امین ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ شام گئے یہ خبر ملنے کے بعد پشاور کے جمہوری کارکنوں نے شاہی باغ میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اکیس برس گزر چکے ہیں، افغانستان کا جغرافیہ تاریخ سے ہم آہنگ نہیں ہو سکا۔ اس عرصے میں نو بہ نو مجاہدین گروہ اور ان کے خانہ ساز رہنما ڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے۔ طالبان آئے، موسیقی کے ساز توڑے گئے، بامیان کے مجسمے بارود سے اڑائے گئے، پھر القاعدہ چلی آئی۔ حامد کرزئی آئے، ڈاکٹر اشرف غنی آئے، امریکی فوجی آئے، پھر چلے گئے۔ اب دوبارہ امریکی بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ داعش بھی افغانستان میں آ پہنچی۔ اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ۔

چین کے شہر ژامیان میں روس، بھارت، برازیل اور ساؤتھ افریقہ کے سربراہ تشریف لائے۔ چین کے صدر میزبان تھے۔ کوئی چالیس صفحات کا ایک متفقہ اعلامیہ منظور کیا گیا۔ اس کے مطابق افغانستان میں داعش، جماعت الاحرار، پاکستان تحریک طالبان، مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان موجود ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں لشکر طیبہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک، تحریک طالبان اور حزب التحریر موجود ہیں۔ یہ گروہ اس خطے میں اور دنیا بھر میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ قابل غور بات ہے کہ ان گروہوں کی موجودگی پر افغانستان یا پاکستان کی ریاستوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ پاکستان ان تنظیموں کو کالعدم قرار دے چکا ہے۔ پاکستان ان تنظیموں کے ٹھکانے تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ تاہم ان تنظیموں کا کوئی ڈھانچہ اور مددگار نظام کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ سندھ پولیس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کل ہی کراچی میں ایک نیا گروہ دریافت کیا ہے۔ درجن بھر تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل یہ گروہ خود کو انصارالشریعہ کہلاتا تھا۔ رمضان کے مہینے میں ریسٹورنٹ میں بیٹھے چار پولیس اہلکار اس گروہ کا نشانہ بنے۔ کئی خوفناک وارداتوں میں اس گروہ کا ملوث ہونا آشکار ہوا ہے۔ صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، خواجہ اظہار الحسن قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ اسے حفاظتی اقدامات کی کامیابی کہا جائے یا محض حسن اتفاق، لیکن مرنے والے حملہ آور سے اس گروہ کا سراغ مل گیا۔

دوسری طرف جنوب مغربی بلوچستان کے ضلع پنجگور میں سیکورٹی کانوائے پر حملہ کیا گیا۔ ایک لیفٹیننٹ کرنل اور دو جوان شہید ہوئے۔ ملحقہ تحصیل پروم میں ایسے ہی ایک حملے میں ایک شخص کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پنجگور کو گوادر کا دروازہ سمجھنا چاہئے۔ مغرب میں بین الاقوامی سرحد ہے۔ سی پیک کو پنجگور سے گزرتے ہوئے گوادر تک پہنچنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی مختصر نہیں ہوتی اور اس کے خدوخال ہر مرحلے میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی کراچی اور پنجگور کے واقعات میں مزید شواہد سامنے آئیں گے۔ ہمارے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے برکس اعلامیہ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اس اعلامیے پر دستخط کرنے والے پانچ ملکوں کی آبادی ساڑھے تین ارب سے زیادہ ہے۔ ان ملکوں میں نقطہ اشتراک معیشت ہے۔ سوچنا چاہئے کہ ہم تو چین اور بھارت کے ہمسائے ہیں۔ ہماری آبادی بھی اکیس کروڑ ہے گویا برازیل، روس اور ساؤتھ افریقا سے ہماری آبادی زیادہ ہے۔ اصولی طور پر تو معیشت کے اس دستر خوان پر ہمیں بھی ایک کونا ملنا چاہیے تھا۔ ہم انکار، تاویل اور تکذیب کے منطقے میں بیٹھے ہیں۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ چین اور روس ہمارے دوست ملک ہیں۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ مگر یہ بھی تو کہیے کہ دہشت گردی کے سوال پر چین اور روس بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ ہم اس موقف کو مسترد کرتے ہیں تو گویا ہم متفقہ عالمی موقف سے اختلاف کرتے ہیں۔ دہشت گردی پر عالمی موقف ہے کیا؟ دہشت گردی کی مذمت تو ہر ملک کرتا ہے۔ ہمارا ملک دہشت گردی سے بہت زیادہ نقصان اٹھانے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ تو پھر اختلاف کیا ہے؟

دنیا کے ہر ملک میں زیر زمین مفادات، پس پردہ اختیار اور دور فاصلاتی فیصلہ سازی کی ثقافت کسی نہ کسی سطح پر موجود ہوتی ہے۔ جنہوں نے اسلحہ سازی کے کارخانے لگائے ہیں وہ اسلحہ بیچنا چاہتے ہیں۔ گویا جنگ کے شعلوں سے کسی کا چولہا گرم ہوتا ہے۔ کچھ ممالک اپنے خارجی مفادات کو دہشت گردی کی مدد سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کا بیوپار اسلحہ بنانے کے کاروبار سے جڑا ہے۔ اس میں خطرے کا نشان وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں کسی ملک میں منتخب نمائندوں کو بے اختیار کر دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے عوام امن پسند ہیں۔ کسی کو اپنا گھر تباہ ہونا اور اپنے پیاروں سے بچھڑنا پسند نہیں۔ عوام کی رائے حق حکمرانی میں تبدیل ہوتی ہے تو ریاست میں ان رخنوں کو ختم کرنا ممکن ہو جاتا ہے جہاں دہشت گردی کے جراثیم پلتے ہیں۔

ڈاکٹر نجیب اللہ ٹھیک کہتے تھے۔ دنیا کی ہر قوم کے لئے بنیادی سوال یہی ہے کہ جغرافیے اور تاریخ کو کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔ جغرافیہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ کا رخ بدلا جا سکتا ہے۔ تاریخ کا رخ تبدیل کرنے کے لئے ریاست اور شہریوں میں تحکمانہ جبر کے رشتے کو نامیاتی تعلق میں بدلنا ہوتا ہے۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان نامیاتی تعلق کی بنیاد کن نکات پر ہے۔ منتخب نمائندے فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہوں۔ عدالت آزاد ہو، صحافت ذمہ دار ہو، قانون عقلی مکالمے کے ماتحت ہو، تعلیم ہم عصر علمی مکالمے سے ہم قدم ہو، معیشت منڈی کے اصولوں پر استوار ہو تو سیاسی قیادت کے لئے جغرافیائی اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے تاریخ میں اپنی قوم کا صحیح مقام پیدا کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ قوم کا مقام شہریوں کے معیار زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ معیشت کا سوال ہے۔ برکس میں شامل پانچ ملک معیشت کی بنیاد پر مل بیٹھے ہیں۔ اسلام آباد میں بلائے گئے سفیر خارجہ پالیسی میں لفظی موشگافیاں کر سکتے ہیں۔ کارخانے کا پہیہ چلانا معیشت دان کا کام ہے۔ تعلیم سے تشدد، تعصب اور تفرقے کو ختم کرنا ماہرین تعلیم کا کام ہے۔ جمہوریت اشارے کنائے کے پردے میں چلی جائے تو دہشت گردی فلاح و بہبود کا نقاب اوڑھ لیتی ہے۔ کامیاب ریاستیں خیراتی ادارہ نہیں ہوتیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے