بچوں کے خوراک کے رجحانات: ایک سنجیدہ مسئلہ

:

ہم مذہبی اور سیاسی بحثوں میں ایسے الجھے ہوے ہیں بلکہ ان کا ایسا چسکا پڑا ہوا ہے کہ انسانی زندگی کے عام مسائل کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔ جبکہ مغربی دنیا ان مسائل کے بارے میں بھی خاصی حساس ہے۔ مثلا ہمارے بچوں کے کھانے پینے کے رجحانات ہیں، بچے ہمارا مستقبل ہیں اور یہ مستقل ان کی خوراک کی عادات سے وابستہ ہے۔ برطانیہ میں رہنے والے ہمارے ایک عزیز ایک دفعہ بتا رہے تھے کہ آج کل ٹی وی اشتہارات کے ذریعے بچوں کو زیادہ چپس کھانے سے روکنے کی ترغیب دی جارہی ہے کہ اس سے آئل کی ضرورت سے کہیں زیادہ مقدار جسم میں چلی جاتی ہے اس کے علاوہ اسکولز میں بچوں کے ٹفن بھی چیک کیے جاتے ہیں۔
اگرچہ ن لیگ پر یہ الزام ہے کہ وہ صرف انفراسٹرکچر پر توجہ دیتی ہے لیکن پنجاب فوڈ اتھارٹی صحت عامہ اور عوامی آگاہی کے بارے میں اچھا کام کر رہی ہے خصوصا عوامی آگاہی کی طرف حکومتیں کم توجہ کیا کرتی ہیں اگر انہیں جاگ آے بھی تو ساری عنایت پکڑ دھکڑ کی طرف ہوتی ہے۔

بچوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ تیز ذائقے والی مصنوعات استعمال کرنے کے نتیجے میں قدرتی ذائقوں سے دور ہورے ہیں۔ اب ایک بچے کا جی پیزا ٹافی کوکیز وغیرہ الا بلا دیکھ کر تو للچاے گا کیلا امرود اخروٹ میں اس کے لیے وہ کشش نہیں ہوگی۔ گزشتہ دنوں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس حوالے سے بھی کچھ عرصہ آگاہی مہم چلائی نیز یہ بھی کہ بجاے اس کے کہ بچے اسکول کی کنٹین سے کچھ لے کر کھائیں ماوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ٹفن یا لنچ باکس دے کر بھیجیں۔

لڑکیاں اپنی لُک کے حوالے سے زیادہ حساس ہوتی ہیں آج کل یہ رجحان نوٹ کیا جارہا ہے کہ دبلی پتلی نظر آنے کے شوق میں ان کے خوراک کے رجحانات غلط ہورہے ہیں۔ سمارٹ نیس کے چکر میں وہ اپنے جسم کو ضروری خوراک بھی نہیں دے پاتیں جو کہ خطرناک بات ہے۔ ہر انسان کا اپنا ایک قدرتی فریم ہوتا ہے اس کے اندر رہتے ہوے ہی سمارٹ نیس بھی اچھی لگتی ہے اسے نظر انداز کرنا خود کو سزا دینے اور صحت خراب کرنے کے مترادف ہے۔

لڑکیوں میں یہ رجحان کہاں سے آیا ہمارے ہاں تو شاید اس پر غور کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی لیکن مغرب میں ایک راے یہ ہے کہ اس کی ذمہ دار فیشن سے تعلق رکھنے والی اشتہاراتی صنعت ہے۔ وہ مصنوعات کو زیادہ سے بکوانے کے لیے صرف دبلی پتلی لڑکیاں بلکہ کم عمر لڑکیاں اشتہارات کے لیے ہائر کرتی ہے لیکن اس کا منفی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسی سائز کو اچھی لُک کا معیار سمجھ کر بچیاں اپنی خوراک پر کمپرومائز شروع کر دیتی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ اشتہاری صنعت معاشرے میں جو کچھ موجود ہے اس کا مکس دکھاے جب وہ ایک ہی نوعیت دکھاے گا تو عام نوجوان اسے معیار سمجھ بیٹھے گا اور ویسا ہی بننے کی کوشش کرے گا۔

اسی چیز کا ادراک کرتے ہوے مغرب کے بعض اداروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کم عمر یا بہت دبلی پتلی لڑکیاں یعنی فلاں عمر اور فلاں سائز سے کم اشتہارات کے لیے ہائر نہیں کریں گے۔ اگرچہ وہاں بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ لڑکیوں میں کم خوراکی کی محض یہ ایک وجہ نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی ادارے نے اس حوالے سے از خود ذمہ داری کا احساس کیا ہے تو خوش آئند ہے۔
خیر سے ہماری ہاں اس طرح کا کوئی سوال ہی موجود نہیں ہے اگرچہ مسئلہ ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ اسی طرف توجہ دلانے کے لیے کل بی بی سی کی ایک خبر مختصر نوٹ کے ساتھ شیئر کی تھی، لیکن چونکہ ہمارے ہاں یہ مسائل توجہ کے مستحق نہیں بنتے اس لیے احساس ہوا کہ یہ مختصر مسئلے کی نوعیت سمجھانے کے لیے کافی نہیں ہے، اس متن کی شرح کی ضرورت ہے۔ سو شرح کے طور پر یہ مفصل پوسٹ حاضر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے