ملا عمر زندہ ہیں ۔ افغان طالبان،،،،2013 میں کراچی میں فوت ہو گئے۔ افغان انٹیلیجنس

 

 

ملا محمد عمر

افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی خبروں کی تصدیق کی تھی تاہم افغان طالبان نے ان خبروں کی سختی کے ساتح تردید کر تے ہوئے کہا کہ ملاں محمد عمر نہ صرف زندہ ہیں بلکہ طالبان کی قیادت بھی کر رہے ہیں ۔

دوسری جانب افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے ترجمان عبدالھسیب صدیقی نے کہا کہ وہ ملا محمد عمر کی موت کی تصدیق کر تے ہیں ۔ ملا عمر کراچی کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے اور وہیں 2013 میں ان کا انتقال ہوا ۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملا محمد عمر دو برس قبل مارے جا چکے ہیں اور ملا محمد اختر نے ان کی جگہ افغان طالبان کی امارت سنبھال لی ہے

سر پر پگڑی ، لمبی داڑھی، دبلا پتلا جسم ، 5 فٹ اور 11 انچ لمبا قد ، سلیٹی چادر اوڑھے افغان طالبان کے امیر المومنین ملاں عمر کے بارے میں جاننے کے لیے ایک دنیا بے تاب ہے کہ وہ آخر ہیں کہاں

ملا عمر سن چھیانوے سے 2001 تک افغانستان کے حکمران رہے ۔ نائن الیون کے بعد امریکی اور نیٹو افواج نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔

حکومت کے خاتمے کے بعد ملا عمر اور ان کے ساتھی گوریلا جنگ میں مصروف ہیں ۔

ملا محمد عمر1959افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں پیداہوئے ۔
دیوبندمکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پشتون ملاعمر نےدینی مدرسوں سے تعلیم پائی۔
پہلےوہ روسی فوجوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے۔
ایک معرکے میں وہ زخمی ہوا اور ایک آنکھ ختم ہو گئی۔

گزشتہ دنوں امریکا اور چین کے نمائندوں کی موجودگی میں پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے۔

امریکا، چین ، پاکستان اور افغان حکومت نے ان مذاکرات کو سراہا۔ طالبان رہنما ملا عمر نےمذاکرات کو خوش آئند اور اسلامی اصولوں کے مطابق قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات افغانستان سے غیرملکی تسلط ختم کرنے کا اہم موقع ہے۔

تاہم جب مذاکرات کے بارے میں بات چیت کی جارہی ہے عین اس وقت ملا عمر کے قتل کی خبر نے پوری دنیا میں ایک ہلچل مچا دی ہے ۔

طالبان سے علاحدگی اختیار کرکے افغانستان اسلامک موومنٹ فدائی محاذ کے ترجمان قاری حمزہ نے نے بتایا کہ ملا عمر کو دو برس پہلے جولائی میں ملا اختر محمد منصور اور گل آغا نے قتل کیا ۔ جس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

ادھر افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈیکٹوریٹ آف سیکورٹی نے گزشتہ سال نومبر میں ملاعمر کے قتل کی
اطلاع دی تھی ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملا عمر کے قتل کے بعد طالبان تین مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں

گزشتہ سال یہ خبر یں بھی گردش کرتی رہیں کہ ملا عمر نے اپنے دیرینہ ساتھی اور نائب اختر محمد منصور کو امن عمل سے متعلق تمام فیصلوں کا اختیاردیدیا ہے۔

نیشنل ڈیکٹوریٹ آف سیکورٹی کے ترجمان حسیب صدیقی کے مطابق گزشتہ سال 19 نومبر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایاگیا تھا کہ طالبان کے اہم رہنما تین دھڑون میں تقسیم ہوگئے ہیں ۔

حسیب صدیقی کے مطابق پہلے دھڑے کی سربراہی ملا قیوم زاکر اور طیب آغا کررہے تھے ۔ ان کے ساتھ حافظ مجید، عامر خان حقانی، ملا محمد عیسیٰ، خادم عبدالروف، ضیا آغا، اور طارق آغا شامل ہیں ۔

دوسرے گروپ میں ملاآغا، ملاصمد ثانی ، مولوی نانی، ابراہیم شیخ، مولوی عبدالحاکم مند، مولوی محب اللہ شامل ہیں ۔

جبکہ تیسرا گروپ غیرجانبدار طالبان رہنماوں پر مشتمل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے