نیویارک دنیا کا عظیم ترین شہر جہاں ٹائم اسکوائر ہے، جہاں مجسمہ آزادی ہے، جہاں دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ارب پتی لوگ رہتے ہیں، اس عظیم شہر میں 46 فیصد لوگ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس شہر کے 70 ہزار سے زائد امریکی یہاں فٹ پاتھ پہ سوتے ہیں
ٹوکیو جہاں دنیا میں سب سے زیادہ ارب پتی لوگ رہتے ہیں، جاپان کی اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے مطابق ٹوکیو میں 50 فیصد لوگ اپنے لائف اسٹائل کو افورڈ نہیں کرسکتے
ٹورنٹو، دبئی، سنگاپور، سیٹل، سیئول اور لندن سے لے کر اسٹاک ہوم تک یہی کہانی ہے، امیر ترین شہروں کے غریب ترین باسی جن کے پاس گاڑی ہو تو وہ پیٹرول نہیں ڈلواسکتے، وہ اپنے بچوں کی فیس ادا نہیں کرسکتے، وہ ساری زندگی بچت کرتے ہوئے گزارتے ہیں
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے!
فوربز کے مطابق دنیا کی آدھی دولت 62 افراد کے ہاتھوں میں ہے
کتنے لوگوں کے ہاتھوں میں؟ صرف 62
جب تک یہ دولت تقسیم نہیں ہوگی، اس وقت تک دنیا تبدیل نہیں ہوگی
ہماری یہ دولت ہم سب کو کیسے ملے گی!
یہ بات ہے معاشی نظام کی ۔۔
اس وقت دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام ہے، اس نظام میں امیر امیر سے امیر تک اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا ہے، ہمارے نوجوان سرمایہ داروں کی ملازمت کے لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں، اشتہاروں سے وہ ہماری خواہشات کنٹرول کرتے ہیں، ہم ان کے لئے صرف خریدار یا ملازم ہیں
ایک دوسرا نظام بھی ہے، اسے اشتراکی نظام یعنی سوشلزم کہتے ہیں، ہمارے خطے میں اسے سب سے پہلے صوفی شاہ عنایت رحمہ اللہ لے کر آئے، کارل مارکس جس کے بارے میں علامہ اقبال نے نیست پیغمبر کہا تھا، نے دنیا کے قدیم ترین سوشلسٹ نظام کے جدید معاشیات کو سامنے رکھ کر اصول مرتب کئے
اشتراکیت دولت اور زمین کی منصفانہ تقسیم کا نظام ہے، اس نظام میں پیداوار کا مقصد نفع نہیں ہوتا بلکہ پیداوار کا مقصد فلاح ہوتا ہے، فیکٹری یا کمپنی کی آمدنی ملازمین اور مزدوروں میں تقسیم ہوتی ہے
اشتراکیت دنیا کا خواب ہے، یہ آئیڈیلزم کی انتہا ہے، اسے دیوانے کی بڑ بھی کہتے ہیں، سوویت یونین میں اس خواب کو تعبیر ملی تھی مگر سرمایہ داروں نے برے مذہبی لوگوں کے ساتھ مل کر اس تعبیر کو چکنا چور کردیا
سرمایہ دار خیرات دیتے ہیں کہ وہ دولت کو تقسیم کررہے ہیں، یہ دھوکا ہے، سرمایہ دار چیئریٹی کرتے ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر ۔۔
ہر 20سال بعد ہمارے خریدنے کی قوت دم توڑنے لگتی ہے مگر سرمایہ داروں کی مصنوعات دھڑا دھڑ بن رہی ہوتی ہیں تو معاشی بحران آتا ہے جس میں چھوٹے تاجر تباہ ہوجاتے ہیں اور یہ سائیکل چلتا رہتا ہے
آپ کچھ نہیں کرسکتے تو شعور تو آپ کا حق ہے، آپ اپنے مسئلوں کو سمجھنے کا شعور تو حاصل کرسکتے ہیں، شعور تبدیلی کی پہلی منزل ہوتا ہے
آپ کو تمام سنی سنائی باتوں کو ایک جانب رکھ کر اپنے بل بوتے پر جاننا ہوگا کہ سوشلزم کیا ہے!