تقسیم ہند 1947 سے ہی بھارتی حکمران پاکستان کو کمزور اور ختم کرنے کی منصوبےبناتےآئے ہیں۔اس حقیقت کی تصدیق امریکی خفیہ ادارے سی آئی کی رپورٹ میں بھی ہوئی۔رپورٹ کیمطابق 80 کی دہائی میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔حالیہ مہینوں میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر بھارت کی بےنقاب ہوتی سازشیں بھی اس امر کا واضح ثبوت ہیں۔بھارت کہتا ہے کہ اقتصادی راہداری بننے نہیں دے گا چاہے اُسے داعش کو ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے اور اُن کو ایٹمی اسلحے سے بھی کیوں نہ مسلح کرنا پڑے۔
بھارتی وزیراعظم نے چینی وزیر خارجہ سے ملاقات میں سی پیک کو ختم کرنے کا جس طرح مطالبہ کیا اس سے مودی حکومت کی خباثت کھل کر سامنے آ ئی کہ وہ کسی صورت پاکستان کی ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتے۔نریندر مودی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے منطق یہ پیش کی کہ منصوبہ متنازعہ علاقہ کشمیر سے گزر رہا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھارتی پروپیگنڈے سے متاثرہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ بھی سامنے آئی ہے جس میں رائے دی گئی ہے کہ منصوبے سے پاک بھارت کشیدگی بڑھ سکتی ہے جو کافی حد تک حیران کن ہے ،چین نے سی پیک کے بارے میں خدشات پر مبنی اقوام متحدہ کی رپورٹ مستردکرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ فقط اقتصادی منصوبہ ہے۔سی پیک منصوبے کی تکمیل سے اقتصادی ترقی اور خوشحالی سے نہ صرف پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بن کر خطے میں اہمیت اختیار کر جائے گا بلکہ انڈین اخبارات میں چھپنے والے مضامین کے مطابق بھارت کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ سی پیک منصوبہ مکمل ہونے کے بعد مسئلہ کشمیر پر چین کی غیر جانبدار پالیسی پاکستان کے حق میں ہوجائے گی،جبکہ بھارت تو مسئلہ کشمیر کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے۔سی پیک کے آغاز میں بھی بھارتی راہنماؤں نے سرتوڑ کوشش کی تھی کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ شروع نہ کرے تاہم چین نے بھارت کی ہرزہ سرائیوں پر کان نہ دھر تے ہوئے اس منصوبے پر کام شروع کر دیا، اور الحمداللہ آج سی پیک تکمیل اور کامیابیوں کی منازل طے کرتے ہوئے ایک ایسے مقام پر آن پہنچا ہےکہ جرمنی ،برطانیہ اور دوسرےمغربی ملک اس منصوبےکاحصہ بننے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
آسٹریلیا کی خاتون وزیرخارجہ بھی پاکستان کے دورے کےدوران راہداری کیلئے اپنے ملک کی خدمات اور کان کنی کے تجربے سے استفادہ کی پیشکش کرچکی ہیں۔ راہداری میں اپنی ہنرمندی اور تجربے کو بروئے کار لانے میں بظاہرامریکہ بھی دلچسپی ظاہر کر چکاہے تاہم ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی اورامریکی انتظامیہ کے حالیہ بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ اندرونی طور پر امریکہ بھی بھارت سے ملکر راہداری کے پروگرام کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے کیونکہ میرے خیال میں سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد امریکا کو اپنی واحد سپر پاور کا سورج غروب ہوتا نظر آرہا ہے۔
اب سوال اُٹھتا ہے کہ پاکستان بارہا کہ چکا ہے کہ بھارت سمیت خطے کے تمام ملک اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس منصوبے سے 3 ارب افراد کو فائدہ ہوگا تاہم پھر بھی بھارت کوسی پیک سے خدشات کیا ہیں؟؟ کیوں وہ اس کی بھرپور مخالفت کررہا ہے؟؟ اس ایشو پر میں نے محققین اور ماہرین سے گفتگو کی۔۔بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا کہ بھارت کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے کبھی پاکستان کے کسی بھی اچھے معاملے کی حمایت نہیں کی بلکہ مثبت چیزوں میں سے بھی ہمیشہ منفی پہلو نکالا ہے،ہمیں بھارت کی منفی سوچ کو نظر انداز کرتےہوئےآگے بڑھناچاہئے انٹرنیشنل ریلشنزکےماہرکراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر مونس احمر اورپشاور یونیورسٹی کےڈاکٹراے زیڈ ہلالی جبکہ ریسرچ اسکالرزصدف شہزادی اورانعم فاطمہ نے کہا کہ خطے میں سی پیک کے اقتصادی کے ساتھ جیو پولیٹیکل اثرات بھی مرتب ہونگےاس منصوبے سے نہ صرف پاکستان کو دنیا بھر میں اعلیٰ مقام حاصل ہورہا ہے بلکہ منصوبے کی تکمیل کے بعد ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدن سےپاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی۔
پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کرنے والا یہ منصوبہ نہ صرف ایک شاہراہ ریشم کو جنم دے گا جو تجارت کو محفوظ، آسان، اور مختصر بنائے گی اور گوادر دبئی کی طرز پر اہم مقام بنے گا۔منصوبے کی حقیقت پر نظر ڈالیں تو اتنی بڑی سرمایہ کاری میں کوئی شک نہیں کہ پاک چین دوستی اہم عنصر ہے تاہم یہ منصوبہ چین کے اپنے معاشی اور دفاعی مفاد میں بھی ہے۔چین اسی فیصد سے زائدتیل بحری راستے آبنائے ملاکا سے لاتا ہے،جبکہ اسکی بیشتر تجارت بھی مشرقِ وسطیٰ، یورپ، اور افریقہ وغیرہ سے اسی راستے سے ہوتی ہے۔عرب امارات سے تیل پہنچانے والے مال بردار بحری جہاز بحر ہند سے ہوتے بحر الکاہل پہنچتے ہیں، اور پھر منزلِ مقصود بیجنگ تک پہنچتے ہیں۔ اس راستے کی طوالت 13 ہزار کلومیٹر ہے، مگر جب یہی مال بردار جہاز گوادر پر لنگر انداز ہو تو وہاں سے تیل یا سامان محض 6 ہزار کلومیٹر کا راستہ طے کر کے بیجنگ پہنچ سکتا ہےاور ساڑھے 6 ہزار کلومیٹر کی بچت ہو سکتی ہے تو چین کیوں اس منصوبے کو جلد پائیہ تکمیل نہیں دےگا۔پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں منصوبے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔ریاستی اداروں اورعسکری قیادت برملا اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ اس منصوبے کی طرف میلی آنکھ برداشت نہیں کی جائے گی۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے پنجگور میں اپنے دورے کے دوران کہا کہ پاکستان یہ راہداری ہر حال میں مکمل کرے گا اور اپنے چھپے اور ظاہری دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنائے گا۔سیاسی قیادت،حکومت وقت کو چاہیے کہ سفارتی سطح پر بھی اس منصوبے کے خلاف چھیڑی گئی سرد جنگ کے بھرپور مقابلے کیلئے مزید موثر اقدامات کریں تاکہ بھارت سمیت منصوبے پر منفی پروپیگنڈے کرنے والوں کی سازشوں کو ناکام بنا کر شاندار موقع سے جلد پاکستان کی اقتصادی و سماجی تقدیر بدل سکیں۔