خوبرو اور بہادر نوجوان افسر لیفٹیننٹ ارسلان عالم ستی اس قوم کا اصلی ہیرو ہے۔ اس کی شہادت کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ وہ اپنے دل میں شہادت کی آرزو لئے دشمن کی گولی کا انتظار کررہا تھا۔22سالہ ارسلان کی تصویر دیکھ کر بہت سی آنکھیں نم ہوگئیں۔ ایک طرف ارسلان ہے جس پر پوری قوم کو ناز ہے دوسری طرف سابق فوجی صدر پرویز مشرف ہے جو ارسلان جیسے شہیدوں کے پیچھے چھپ کر بدستور سیاست کررہا ہے اور ہمارے شہیدوں اور غازیوں کیلئے بدنامی کا باعث ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پرویز مشرف پر تنقید نہ کی جائے کیونکہ مشرف پر تنقید سے سول ملٹری تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔ ان لوگوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ مشرف کا اب فوج سے کوئی تعلق نہیں وہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہے اور پاکستانی عدالتوں کا مفرور بھی ہے اس پر تنقید کو فوج پر تنقید کیسے قرار دیا جاسکتا ہے، تو آپ کو کوئی مناسب جواب نہیں ملے گا اور آپ کو یقین ہوجائے گا کہ مشرف اور اس کے حامی ابھی تک بڑی بے رحمی سے فوج کا نام استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان سے فرار ہونے کے بعد پرویز مشرف لندن میں خاموشی سے زندگی گزارتا تو مجھے بھی موصوف کو بھلانے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی لیکن مشرف کو پاکستان سے باہر بیٹھ کر میڈیا کے ذریعے سیاست کرنے بلکہ نائٹ کلبوں میں جاکر ٹھمکے لگانے کا شوق چین نہیں لینے دیتا۔
ابھی پچھلے سال کی بات ہے ،مشرف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ راحیل شریف نے انہیں پاکستان سے باہر بھجوانے کیلئے حکومت کے ذریعے عدالتوں پر دبائو ڈالا تھا۔ حیرت انگیز طور پر مشرف کے اس دعوے کاکسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اب انہوں نے ایک اور دعویٰ کردیا ہے، فرماتے ہیں محترمہ بینظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کو آصف علی زرداری نے قتل کرایا تھا۔ جس دن ان کا یہ الزام سامنے آیا تو اسی رات میں آصف علی زرداری کو یہ کہہ رہا تھا کہ اگر مشرف کا احتساب ہوجاتا تو ناصرف پارلیمنٹ اور عدلیہ بلکہ فوج کا وقار بھی بلند ہوجاتا۔ زرداری صاحب نے جواب میں کہا کہ ہم نے تو کبھی یہ بڑھک نہیں ماری تھی کہ ہم مشرف کا احتساب کریں گے ہم نے تو اسے ایوان صدر سے نکال دیا تھا جب نواز شریف نے مشرف کے احتساب کی ٹھانی اور ہم سے مدد مانگی تو ہم نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوگئے، لیکن پھر آپ کے مجاہد جمہوریت نواز شریف نے مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کرلی اور اسے پاکستان سے بھگا دیا۔ ہم نے جو کیا وہ ساری دنیا کے سامنے تھا نواز شریف نے خفیہ طور پر مشرف کے ساتھ این آر او کیا اور ذمہ داری سپریم کورٹ پر ڈال دی، جب کام نکل گیا تو اپنی بغل میں چھپائی ہوئی چھری نکال کر ہم پر وار شروع کردئیے۔
آج کل نواز شریف کا نام سن کر زرداری صاحب کے لہجے میں جو تلخی پیدا ہوتی ہے وہ مجھے فی الحال کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ زرداری صاحب نے اسی تلخ لہجے میں کہاآج کل آپ کو پھر سے لاپتہ افراد کا درد ہونے لگا ہے آپ نے بار بار لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے غائب ہونے والے کارکنوں کیلئے آواز اٹھائی حالانکہ خود مسلم لیگ (ن) والے اپنا ڈرامہ کرکے خاموش ہوگئے، یہ تو مدعی سست گواہ چست والی بات ہے جن کے بندے غائب ہوئے انہوں نے پولیس کو رپورٹ تک نہیں کی لیکن آپ انہیں مظلوم بنانے پر تلے بیٹھے ہیں، یاد رکھنا یہ لوگ صرف استعمال کرنا جانتے ہیں جب کام نکل جائے گا تو کوئی آپ کو فون بھی نہ کرے گا کہ ہمارے لئے آواز اٹھانے کا شکریہ۔ میں زرداری صاحب کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا۔ شایدوہ صحیح کہہ رہے تھے۔ مسلم لیگ(ن) کے ایک دبنگ رہنما نے گزشتہ دنوں ایک سے زائد مرتبہ مجھے بتایا کہ ان کے کارکنوں کو ایک وفاقی ادارے نے اٹھایا ہے۔ میں نے پوچھا آپ نام کیوں نہیں لیتے تو کہنے لگے آپ نام لے دیں۔ میں نے کہا آپ کوئی ثبوت دیں، بولے ثبوت تو نہیں ہے۔ کہا ثبوت نہیں تو میں کیوں نام لوں؟ کہنے لگے آپ جیسے بہادر آدمی کو ثبوت کی ضرورت نہیں۔ ان کی منافقت، مفاد پرستی اور سنگدلی پر بہت افسوس ہوا۔ میں نے تین چار بڑے بڑے صحافیوں کے نام لئے جو آج کل نواز شریف کی آنکھ کے تارے ہیں اور گزارش کی کہ آپ کے حریت پسندوں کا یہ دستہ نام کیوں نہیں لیتا؟ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جس ادارے کا نام لے رہے تھے یہ ا دارہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ احسن اقبال جیسا بطل حریت اس معاملے پر کیوں خاموش ہے؟اب دو ہی ممکنات ہیں یا تو مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کا کردار و عمل ایسا نہیں کہ وہ کسی کا نام لیں یا پھر یہ سب ایک ڈرامہ تھا۔
پاکستانی سیاست میں نت نئے ڈرامے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ جمعہ کی دوپہر ایسا ہی ایک ڈرامہ میں نے سینیٹ میں بھی دیکھا۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے لیکن مسلم لیگ (ن) نے ایک ایسا بل منظور کروالیا جس کے بعد نواز شریف اپنی پارٹی کے صدر بن سکتے ہیں۔ اس معاملے پر ووٹنگ سے پہلے لنچ بریک میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اعتزاز احسن کو کہا کہ آج ایم کیو ایم ہما را ساتھ نہیں دے رہی اس کے ارکان ایوان سے غائب ہوجائیں گے، تحریک انصاف والے بھی ایوان میں کم ہیں کہیں آپ کو شکست نہ ہوجائے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم جیت بھی گئے تو مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر قانون منظورکرالے گی۔ اس قانون پر ووٹنگ ہوئی تو37کے مقابلے میں 38ووٹوں سے مسلم لیگ (ن) کو کامیابی مل گئی۔ یہ کامیابی ایم کیو ایم کے میاں عتیق کی وجہ سے ملی جن کے خلاف ان کی پارٹی نے کارروائی شروع کردی ہے، حالانکہ ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی وزارت عظمیٰ کے الیکشن میں شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دے چکے ہیں۔ میں نے میاں عتیق سے پوچھا کہ آپ کے باقی ساتھی غائب تھے صرف آپ ووٹ دینے ایوان میں کیوں آئے تو بولے کہ مجھے سعد رفیق صاحب نے بتایا تھا کہ فاروق ستار سے بات ہوگئی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس قانون میں جو ترمیم اعتزاز احسن نے پیش کی وہی ترمیم تحریک انصاف کے شبلی فراز بھی پیش کرچکے تھے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا اس معاملے پر اتفاق تھا لیکن تحریک انصاف کے سینیٹر نعمان وزیر نے اس قانون کی مخالفت نہیں کی حالانکہ وہ پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت میں موجود تھے۔ تحریک انصاف کے ایک اور سینیٹر بریگیڈئر(ر) ولیم بھی غیر حاضر تھے۔ پیپلز پارٹی کے رحمان ملک، عثمان سیف اللہ اور نبی بخش بنگش غیر حاضر تھے۔ مسلم لیگ(ق) کے مشاہد حسین سید پارلیمنٹ ہائوس میں ایک کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے لیکن ایوان میں نہیں آئے۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق بھی نہیں آئے۔ فاٹا والوں نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا ، کیوں دیا مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ نہال ہاشمی نے اپنی پارٹی کو ووٹ دیا حالانکہ پارٹی ان کو فارغ کرچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک جائز آئینی طریقے سے کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو حیران تو کردیا لیکن سیاست میں یہ چالاکیاں زیادہ دیر نہیں چلتیں۔ مسلم لیگ (ن) آنے والے وقت میں مشرف کارڈ کھیلے گی۔ جب بھی نواز شریف اور ان کے خاندان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوں گے مسلم لیگ(ن) کہے گی کہ پہلے مشرف کو پکڑو پھر ہماری طرف دیکھنا۔ مسلم لیگ(ن) حکومت میں بھی ہے اور اپوزیشن میں بھی ہے۔ ایک دفعہ پھر کسی خفیہ این آر او کی کوشش جاری ہے لیکن کامیابی کا امکان معدوم ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی طاقت پرویز مشرف ہے، جب تک پرویز مشرف باہر ہے نواز شریف کو اندر کرنا بہت مشکل ہے۔