اقبالؒ نے کہا تھا پس چہبایدکرد؟ اب کیا کرنا چاہئے؟ ان کے دور میں اتنا کچھ کرنے کی ضرورت نہ تھی جس قدر آج ہے، کیونکہ تب گھر بنانے کا مسئلہ درپیش تھا اب گھر کو ٹھیک کرنے اسے صاف ستھرا رکھنے کا جتن کرنے کی ضرورت ہے، ٹھیک کرنے کی بات تو آج بھی کہی گئی مگر اس کا مطلب ڈو مور تھا، اور سب جانتے ہیں یہ دو لفظی جملہ کس ٹکسال میں ڈھالا گیا، اور صاحب ٹکسال کی اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے لئے کچھ اور کرو یہ جو جان پر کھیل کر اتنا کچھ کیا یہ تو کچھ بھی نہیں، اور ہم نے اس کی اسی ڈیمانڈ کو اپنی قوم تک پہنچایا کیوں کہ قوم کا بھی آخر کچھ حق ہے اسے بھی بتانا ضروری ہے کہ صاحب کہتے ہیں بوٹ ابھی نہیں چمکے اتنا چمکائو کہ اس میں چہرہ نظر آئے، بہرصورت وضاحت ہو چکی اب اپنے گھر کو ٹھیک رکھنے کی کوئی اور تشریح کوئی نہ کرے، اس لئے کہ انہی تشریحات و تعبیرات کے باعث ہی ہمارا خواب بکھر گیا، جبکہ ہم نے خواب نہیں حقیقت دیکھی تھی اور حقیقت شناسی کے لئے آنکھ کھولنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، چیونٹی کس قدر سست رفتار ہوتی ہے مگر اس کی نیت اتنی تیز رو کہ سال بھر کے دانے ایک ہی موسم میں اپنے گھر لے جاتی ہے، اور جاڑوں کی سرد راتوں کو انجوائے کرتی ہے، جان بروٹس نے ایک مکڑی سے سبق سیکھا تھا ہم ایک چیونٹی سے کیوں نہیں سیکھتے؟ ہم نے ستھری سیاست ابھی جمہوریت کا اتنا مائنس نیت ورد کر لیا ہے کہ خوابوں میں دوزخ کے مناظر دیکھتے ہیں، آمدم برسرِ مطلب اب کرنا کیا چاہئے؟ عوام یا قوم کے مبارک نام کو غیر مبارک انداز میں استعمال کرنے والوں کو مزید عوامی قومی استحصال کا موقع نہیں دینا چاہئے، یہ عوام کی بھی کوئی عدالت ہوتی ہے اگر ایسا ہے تو مقدمے لٹکے ہوئے کیوں ہیں؟ جواب کسی ماہر نورسرباز سے پوچھئے بشرطیکہ آپ بھی نوسرباز بن کر اس کے قریب ہو جائیں اور وہ آپ کو سارے ٹرک بتا دےپھر آپ پر سب ایسا شیشہ ہو جائے گا جس کی پشت پر زنگار نہ ہو ورنہ اپنا ہی منہ دیکھتے رہ جائو گے۔
٭٭٭٭
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
بھارت کا افغانستان فوج بھیجنے سے انکار، کردار بڑھانے پر تیار، امریکی وزیر دفاع کی مودی سے ملاقات، پہلے امریکہ سے ہمدردی کے لئے ایک شعر؎
بھارت کے مت فریب میں آ جائیو ’’انکل‘‘
دوستی کے روپ میں وہ سب کا دشمن ہے
یہ شعر ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی عالمی برادری کو بھارت سے بچنے کے لئے گھڑنا پڑا، ورنہ نہ ہم شاعر نہ شاعری سے رغبت۔ یہ جو مطالبہ امریکہ نے کیا اور جو جواب بھارت نے دیا بس اسے ذرا الٹا کر پڑھ لیجئے سب عیاں ہو جائے گا، الغرض؎
مودی و امریکہ تصویر کے پردے میں بھی منکر نکلے
ایک ہم ہیں کہ بے اقتدار، بے اختیار بھی مقتدر نکلے
ساری دنیا سے زیادہ ٹرمپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پرورش بھارت، افغانستان کے انکیو بیٹر میں کر رہا ہے، جونہی چوزہ، مرغا بنتا ہے اسے پاک سرزمین پر اتار دیا جاتا ہے۔ امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ بھارت پہلے ہی حسب ضرورت سے کچھ زیادہ افغانستان میں موجود ہے، مگر یہ جو بھارت امریکہ اگر مگر ہے یہ سب مگر مچھ ہے، ہمارے حکمرانوں کا ایک کمال ہے جو موجب زوال بنتا جا رہا ہے وہ یہ کہ ’’وہ‘‘ 5دہائیوں سے امریکہ اور چین دونوں کو دوست بنا کر چلنے کی تگ و دو میں آج چستہ آبِ زوال تک آ پہنچا ہے اور یہ وہ خطرناک کھیل ہے جام و سندان کا جو کبھی کسریٰ کے دربار میں بازی گر دکھایا کرتے تھے اگر کوئی اس کھیل کو سمجھنا چاہے، کھیلنا چاہے تو یہ شعر بمعہ ترجمہ بار بار پڑھے شاید کچھ پلے پڑے؎
در کفِ جام شریعت در کفِ سندان عشق
ہر ہوستا کے نہ داند جام و سنداں با جتن
ایک ہتھیلی پر جام شریعت، ایک پر عشق کی آگ کا دہکتا گولہ، یہ جام و سنداں کا کھیل ہے جسے کھیلنا ہر ہوس پرست کے بس کا کام نہیں۔
٭٭٭٭
درِ انصاف بھی دریار میں شامل کر لو!
ان دنوں ہماری عدالتوں میں ہر طرف رونقاں ای رونقاں اور ٹی وی چینلز دیکھنے والوں کی موجاں ای موجاں، ہمارے جرموں نے ہمت کر کے ساری عدالتوں کے بند اور خاموش در کھول دیئے در انصاف بھی در یار میں شامل کر لو۔
عدل بڑھتا ہے جو معشوقوں سے معشوق ملیں
جب سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف عدالت عظمیٰ کی جانب پروٹوکول در پروٹوکول چلے اور یہ کاروانِ عشق و مستی باب عدل پہنچا تو زمین چمن نے نوحہ پڑھا مگر کسی نے نہ سنا، ملاقات ہوئی، پَر گل بات نہ ہوئی، سوموٹو اجازت ملی، عدالت کے آنگن میں سجے میلے میں ہلچل مچی، اور یوں لگا کہ نواز شریف گئے ہی کب تھے کہ آئے، حکومت نے عوام کو یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ کوئی پیشی بھگتنے آیا ہے، ن لیگ کی پوری ٹیم اور کسی سے وفا دار ہو نہ ہو لیکن میاں صاحب سے جو وفاداری جو محبت ہے ان کو اسے دیکھ کر برہمن و دیوتا کا پیار بھی ماند پڑ جائے، کیا برمحل کہا ہے کسی نے؎
وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
مقدمات جو عدالتوں کے تہہ خانوں میں چین کی نیند سو رہے تھے، گراں خواب چینوں کی مانند جاگنے لگے، اور اب تو ماشاء اللہ اس وطن پاک نے یہ بھی دن دکھا دیئے کہ میزان عدل کے پلڑے برابر ہو چکے ہیں، محمود ہو کہ ایاز سب نکے وڈے کٹہروں میں صفیں باندھے با ادب کھڑے دکھائی دینے لگے، جن عدالتی کمروں نے ایک عرصے سے ملزم دیکھے نہ ان کے ملازمین اب وہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی، بندہ دھرنے کیلئے بہرحال درانصاف بھی دریار کی طرح چوپٹ کھلا ہے صدائے عام ہے یاران داغ داغ کیلئے !
٭٭٭٭
ذرا سی ڈھیل دیدو مجھ سے ڈیل کر لو
….Oسپریم کورٹ نے جمشید دستی کی نا اہلی کے لئے دائر درخواست مسترد کر دی۔
یہ وہ جام جم والے جمشید نہیں، غریب کا بال ہے نہ جانے کیسے اسمبلی پہنچ گیا، اب انہیں بیٹھنے دیا جائے کوئی بات نہیں آخر کشادہ دلی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
….Oجب بھی سیاست پر مشکل وقت آتا ہے ڈھیل اور ڈیل کا بند قبا کھل جاتا ہے،
….Oایک محترم نے پوچھا یہ سب کیا ہے؟
ہم سے انسٹینٹ جواب تو دیا نہ جا سکا لامحالہ منہ سے نکل گیا:شامتِ اعمال اور اس کی انوکھی لاڈلی صورت۔