فالٹ لائن پرکھڑاشہراورقیادت کی بے حسی

آزادجموں وکشمیر میں سب ہی شہر دیہات بشمول دارالحکومت مظفرآباد کے عوام ملک کے تمام حصوں کی طرح روزگار کے مواقع اور بنیادوں سہولیات کے حوالے سے مختلف مگر مجموعی طورپر ایک جیسی صورتحال سے دوچار چلے آرہے ہیں تاہم اندر ون پنجاب سندھ بلوچستان اور کے پی کے کے برعکس یہاں کے عوام سیاسی سوجھ بوجھ یا پھر رہن سہن معاشرت وماحول ایسا ہے سودانت والا بھی ایک دانت والے کے ساتھ گھن چکر میں آمنے سامنے ہو ہی جاتا ہے جس کے باعث یہاں کے عام لوگوں کارہن سہن گزر اوقات بہت اچھے نہیں ہیں توبہت برے بھی نہیں ہیں

یہی شاید ایک بنیادی وجہ کہ یہ سبھی 4ہزار مربع میل کا سارا علاقہ اور نظام ایک ریاست جیسا ہی ہے لہذا تمام تر کمزوریوں مجبوریوں وارداتوں کے باوجود وسائل اسباب کو نظر آنے کیلئے برورکار لانا پڑتا ہے بے شک یہاں تعمیر وترقی کے حوالے سے نشانیاں آزادی سے پہلے ڈوگرہ کے دور کی موجود ہیں یا پھر زلزلہ کے بعد دنیا کے دوست ممالک اداروں تنظیموں نے ریاست پاکستان کے ساتھ تعاون کر کے بڑے پیمانے پر امدا د اور قرضے فراہم کیے تھے ان سے ہونے والے گھروں سے لیکر سرکاری تعمیرات کے منصوبہ جات ہی زلزلہ متاثرہ اضلاع کی کئی آبادیوں میں سب مٹی گاڑے سے بننے کچے مکانات جن میں دو چار چھ کنبے سب بھائی بچے اکٹھے رہتے تھے پختہ مکان بناتے ہوئے الگ الگ کنبہ کے ساتھ پہلے سے زیادہ بہتر رہائش کے حامل ہوگئے اور سکولوں ہسپتالوں سڑکوں پلوں پانی سمیت بنیادی سہولیات کے حوالے سے سرکاری تعمیرات عمارات جہاں جہاں ہیں وہ شاید یہاں کے نظام کے اندر مزید دوسوسال تک نہ بن پاتی مگر زلزلہ سے پہلے کے تعمیر ات کے حوالے سے پرانے لوگ سب سے زیادہ کریڈٹ حیات خان مرحوم کو دیتے ہیں تو زلزلہ کے بعد بہر حال تعمیرات کا سہرا ریاست پاکستان کو جاتا ہے جس نے امداد کے نام پر قرضوں کا بوجھ لے کر آزادکشمیر اور صوبہ کے پی کے کے زلزلہ متاثرہ اضلاع میں تعمیرنو کے شاندار منصوبہ جات پر عمل درآمد کروایا

یقیناًاس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف کو بھی جاتا ہے ، جنہوں نے کھنڈارت شہر مظفرآباد آکر نہ صرف راتوں کو قیام کیا بلکہ باربار دورے کر کے زندگی کی بحالی میں اپنا متحرک اور سرگرم کردار ادا کیا ورنہ انہی علاقوں میں اتنے سفاک مائنڈ سیٹ بھی ہیں جنہوں نے دکانیں لوٹنے سے لیکر امدادی ٹرکوں کو بھی معاف نہیں کیا تو وہاں پہلے دارالحکومت کوٹلی کی وادی اور ڈسٹرکٹ کواٹر جہلم میں جانے کی باتیں کرکے لوگوں کو دست گریباں کرنے کی مکروہ سوچ کا اظہار کیا پھر دوسری حکومت نے تعمیر نو کے سارے عمل کو درہم برہم کر کے رکھ دیا اور بروقت منصوبہ جات پر عمل نہ ہونے کے باعث آج تک لوگ سزا بھگت رہے ہیں

یہ سفاکیت اب تک ختم نہیں ہوئی ابھی سعودی عرب میں خالصتاً زلزلہ سے گھر بار سے محروم ہونے والے بے گھروں کے لیے لنگرپورہ ٹھوٹھہ سیٹ لائٹ ٹاؤنز بنا کر دیئے مگر یہاں بس مفادات کاروبار اور سیاست مسلسل رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور بندربانٹ کے دماغ ان کو آبادنہیں ہونے دے رہے اگر چہ زلزلہ کے پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ خطرات موجود ہیں اور دوفالٹ لائن پر موجود شہر اور گردنواح کی آبادی والے علاقوں میں نہ صرف کھلے میدان پارک وغیرہ کا لازمی رکھنا اب سے پہلے ہونا چاہیے تھا مگر اسکے بجائے پہلے سے موجود پارک کے رقبے ہوں یا کھلی چراگاہیں ہوں ان پر بھی کبھی اڈوں اور کبھی اثررسوخ کی الاٹ منٹ کے چکروں میں قبضے ہی چلے آرہے ہیں ، مجموعی معاشرتی نظام زلزلہ کے بعد سدھرنے کے بجائے بگڑتا ہی چلا آرہا ہے جس کی انتہا قبروں کی جگہ پر تاحال لڑائیاں ہونا جاری وساری ہیں جس کا قصوروار سارا معاشرہ ہے جس کی جتنی ذمہ داری ہے تواتنہا ہی جرم کا بھی ذمہ دارہے تو پھر کون ایسے حالات اور مجرمانہ معاشرے کو دوبارہ کسی بڑے المیے سے بچائے گا ۔

کاش کوئی سوچ اور وہ جن کی یہ ذمہ داری ہے جو قانون ساز اسمبلی میں بیٹھے ہیں ان سمت ارباب اختیار کہلانے والوں کو اس کا ادراک کرنا چاہیے تاکہ سب کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔ یہ شہر ودیہات لوگ باقی رہینگے تو آپ بھی ایم ایل اے وزیرا عظم بنتے رہیں گے اور بیوروکریٹ سے لیکر بزنس مین تک سب کی نسلوں کی بقاء وسلامتی قائم دائم رہے گی ورنہ یہ سب کچھ ختم ہو گیا اور آپ سب بچ بھی گئے تو آپ کو سلام ، عزت ، پہچان کرنے والے نہیں رہیں گے۔؟؟؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے