طاہر عمر
آئی بی سی اردو ،اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھویں کلاس میں اُسے اپنے دوستوں کے ذریعے انٹرنیٹ سے واقفیت ہوئی،دوسروں کی دیکھا دیکھی اس نے بھی فیس بک کا استعمال شروع کردیا، آہستہ آہستہ اس کا رجحان ہیکنگ کی طرف ہونے لگا۔
انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہر دوسرے تیسرے کے ذہن میں ہیکر بننے کا خواب ضرور ہوتا ہے۔ لیکن گھنٹوں فضول اس خواب کی تعبیر میں ضائع کرنے والے بہت کم نادانوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوپاتا ہے کہ ہینکنگ کسی مخصوص سافٹ وئیر کا نام نہیں، یہ ایک ذہنی سطح کا نام ہے، جس سطح پہ نیٹ ورکنگ، پروگرامنگ اور دیگر کئی چیزوں کے علم اور تجربے کے بعد پہنچا جاتا ہے۔
ہیکنگ سیکھنے کے شوق نے اسے گوگل اور یوٹیوب کے ذریعے اکاونٹس ہیک کرنے کے آن لائن اسباق دیکھنے کا عادی تو بنا دیا لیکن ایک سال تک کھپنے کے بعداسے اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ ہیکنگ اتنا آسان نہیں ، جتنا فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ لہذا اس موضوع پہ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس نے سوچا کچھ مثبت اور فائدہ مند کام کیا جائے۔
اس نے کوئی ایسی ویڈیو نہ چھوڑی جس کا عنوان کمپیوٹر ٹیکنالوجیز کے متعلق ہو اور اردو میں ہو، کیونکہ انگریزی اسے کم ہی آتی تھی۔ بلاآخر اس نے ایک فری بلاگ بنایا۔ اور جو جو باتیں اسے سمجھ آتیں، لکھنا شروع کردیں۔ تب اس نے سوچا کہ بلاگ پہ ٹریفک کیسے لائی جائے۔ اس نے اپنے جیب خرچ سے پیسے جمع کرکے ڈیجیٹل مارکیٹنگ (ایس سی او) کے آن لائن کورسز کئے۔
اور پھر اس نے آن لائن دنیا کی سب سے مشہور ویب سائٹ فائور پہ اپنی ایس سی او کی سروسز کو بیچنا شروع کیا۔ فائور آن لائن مارکیٹ ہے جس پہ لوگ دنیا بھر سے اپنی سروسز فروخت بھی کرتے ہیں اور خریدتے بھی ہیں۔ اس نے محنت، لگن اور کوشش کے ساتھ لوگوں کو اپنی سروسز فراہم کیں ۔ اور پڑھائی پہ بھی فرق نہیں آنے دیا۔ اور میٹرک کے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کئے۔ محض سولہ سال کی عمر میں اس نے اپنی صلاحیت کا اس حد تک لوہا منوایا کہ حال ہی میں فائیور نے اس کو پاکستان کا کم عمر ترین فری لانسر قرار دیتے ہوئے نہ صرف اپنے آفیشیل پیج پہ مبارک باد دی ہے بلکہ اپنی ویب سائٹ پہ اس کو فیچر سٹوری کے طور پہ پیش کیا۔
یہ کہانی پاکستان کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک کم عمر طلحہ کی ہے۔ ایسا ہی ایک اور نوجوان محسن مشرف بھی ہے ، جس نے اپنے سنیرز اور گوگل سے سیکھ سیکھ کے آن لائن اپنی سروسز کا آغاز کیا ،شروع میں اس کی انگریزی اتنی کمزور تھی کہ اس کے دوست اس کی کلائنٹس کے ساتھ گفتگو کو لطیفوں کے طور پہ پڑھتے تھے،لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور کوشش جاری رکھی۔ شروع شروع میں آپ اس کی محنت کا اندازہ لگائیں کہ اس نے 5، 5 ڈالرز میں بھی ویب سائٹس بنا کے کلائنٹس کو دیں، اور چند مہینوں کی محنت کے بعد نہ صرف اپنے والدین کا سہارا ہے۔بلکہ فری لانسنگ میں ٹاپ لیول سیلر بن چکا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی میں کلاسز لینے کے بعد کام کرنے بیٹھ جاتا ہے اور رات کو بمشکل 4 گھنٹے ہی سو پاتا ہے۔
معاشرے میں ایسے کئی لوگ ہیں جو لوڈشیڈنگ ، بے روزگاری اور حالات کا رونا رونے کی بجائے محنت، کوشش اور لگن سے اپنے آپ کو منوا رہے ہیں۔ جو اداروں کے مسائل کو بہانا بنائے بغیر گوگل اور یوٹیوب سے سیکھ رہے ہیں ، جنہوں نے انٹرنیٹ کو فضول کاموں میں استعمال کرنے کی بجائے مثبت استعمال کا رستہ اختیار کیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر شارٹ کٹس لگا کے پیسہ کمانے کی سوچ کو ترک کرکے محنت کی روش کو اپنایا جائے تو شائد بے روزگار نوجوانوں کی بجائے ہر طرف طلحہ اور محسن نظر آنے لگیں ۔