اقتباسات

یوم عاشور کی کیفیت ابھی باقی ہے۔ ڈھلتے ڈھلتے ہی ڈھلے گی۔ قلب و دماغ میں اتر جانے والا غم ایسی چیز نہیں ہوتا کہ بھاپ کی طرح اڑ جائے۔
دل کا اجڑنا سہل سہی پر بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے‘ بستے بستے بستی ہے
کہاں امام حسنؓ کا خیرہ کن علم‘ کہاں امام حسینؓ کا صدیوں سے جیتا جاگتا لہو۔ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے‘ اس کی سرخی کم نہیں ہوگی۔ اس کا اجالا تھمے گا نہیں۔ ایسے میں ایک عدالت کے باہر چیختے چلاتے احسن اقبال کے بارے میں کوئی کیا لکھے۔ سیاست اتنی سفاک ہوگئی کہ اس پر بات کرنے کے لیے پتھر کا جگر چاہیے۔ یہ پتھر آدمی کہاں سے لائے۔
یہ کچھ اقتباسات ہیں جو پڑھنے والوں نے بھیجے ہیں:
وصیت: چند ہفتے پہلے ایک کویتی خاتون خاتون نادیہ الجار اللہ کا انتقال ہوا اور اپنی موت سے پہلے اس نے یہ نصیحت لکھی :
”میں اپنی موت پر افسوس ہرگز نہیں کروں گی ۔مجھے اپنے جسم کی کوئی پروا نہیں۔ پس مسلمان اپنے جو فرائض انجام دیں گے وہ یہ ہیں:
1۔مجھے اپنے کپڑوں سے جدا کر دیں گے 2۔مجھے نہلائیں گے 3۔مجھے کفن پہنائیں گے 4۔مجھے اپنے گھر سے نکال باہر کریں گے 5۔مجھے اپنے نئے گھر یعنی قبر تک پہنچائیں گے 6۔ بہت سے لوگ میرے جنازے کے ساتھ آئیں گے بلکہ بہت سے تو مجھے دفنانے کے لیے اپنی مصروفیات اور مشغولیات سے وقت نکال کر آئیں گے اور بہت سے تو میری یہ نصیحت بھی بھلا دیں گے اور ایک دن7۔ میری چیزوں سے وہ نجات پائیں گے…میری چابیاں،میری کتابیں ،میرا سوٹ کیس ،میرے جوتے ،میرے کپڑے اور اس طرح…اور اگر میرے گھر والے اگر متفق ہوں تو وہ یہ صدقہ کریں گے تاکہ مجھے اس سے نفع پہنچے ۔
یاد رکھو کہ دنیا مجھ پر غم ہرگز نہیں کرے گی…اور نہ ہی دنیا کی حرکت رکے گی…اور تجارت وکاروبار چلتا رہے گا…اور میرا وظیفہ شروع ہو جائے گا جسے غیر لے لیں گے…اور میرا مال وارثوں کے حوالے ہوجائے گا ۔جبکہ مجھے اس کا حساب دینا ہوگا کم ہو یا زیادہ …کھجور کی گٹھلی کے چھلکے یا شگاف کے برابر بھی ہو…اور سب سے پہلے میری موت پر مجھ سے جو چھین لیا جائے گا‘ وہ میرا نام ہوگا! !!اس لئے جب میں مرجائوں گی تو لوگ کہیں گے کہ ”لاش‘‘ کہاںہے ؟ اور مجھے میرے نام سے نہیں پکاریں گے…!اور جب نماز جنازہ پڑھانا ہو تو کہیں گے ”جنازہ‘‘ لے آؤ ۔میرانام نہیں لیںگے …!اور جب میرے دفنانے کا وقت آجائے تو کہیں گے”میت‘‘ کو قریب کرو!!! میرانام بھی یاد نہیں کریں گے …!اس وقت میرا نسب اور نہ قبیلہ میرے کام آئے گا اور نہ ہی میرا منصب اور شہرت…کتنی فانی اور دھوکہ کی ہے یہ دنیا جس کی طرف ہم لپکتے ہیں…پس اے زندہ انسان… خوب جان لے کہ تجھ پر غم و افسوس تین طرح کا ہوتا ہے۔
1: جو لوگ تجھے سرسری طور پر جانتے ہیں وہ ”مسکین‘‘ کہہ کر غم کا اظہار کریں گے ۔
2: تیرے دوست چند گھنٹے یا چند روز تیرا غم کریں گے اور پھر اپنی اپنی باتوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو جائیں گے ۔
3: زیادہ سے زیادہ گہرا غم گھر میں ہوگا‘۔وہ تیرے اہل وعیال کا ہوگا جو کہ ہفتہ ،دو ہفتے یا دو مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ہوگا اور اس کے بعد وہ تجھے یادوں کے پنوں میں رکھ دیں گے ! !!لوگوں کے درمیان تیرا قصہ ختم ہوا اور تیرا حقیقی قصہ شروع ہوا اور وہ ہے آخرت کا ۔
تجھ سے چھن گیا تیرا …1: جمال ،2: مال،3: صحت،4: اولاد ،5: جدا ہوگئے تجھ سے مکان و محلات،6: شوہر…اور کچھ باقی نہ رہا تیرے ساتھ سوائے تیرے اعمال کے اور حقیقی زندگی کا آغاز ہوا ۔اب سوال یہاں یہ ہے کہ :تو نے اپنی قبر اور آخرت کے لئے اب سے کیا تیاری کی ہے ؟یہی حقیقت ہے جس کی طرف توجہ چاہئے ۔
اس کے لیے تجھے چاہئے کہ تو اہتمام کرے۔ 1: فرائض کا2: نوافل کا3:پوشیدہ صدقہ کا 4: نیک کاموں کا 5: رات کی نمازوں کا، شاید کہ تو نجات پا سکے۔ اگر تو نے اس مقالہ کو لوگوں تک پہنچانے میں مدد کی جبکہ تو ابھی زندہ ہے تاکہ اس امتحان گاہ میں امتحان کا وقت ختم ہونے سے تجھے شرمندگی نہ ہو اور امتحان کا پرچہ بغیر تیری اجازت کے تیرے ہاتھوں سے چھین لیا جائے اورتو اپنی اس یاددہانی کا اثر قیامت کے دن اپنے اعمال کے ترازو میں دیکھے گا(اور یاددہانی کرتے رہئے بیشک یاددہانی مومنوں کو نفع دے گی)میت صدقہ کو کیوں ترجیح دیتی ہے اگر وہ دنیا میں واپس لوٹا دی جائے ۔۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا "اے رب اگر مجھے تھوڑی دیر کے لئے واپس لوٹا دے تو میں صدقہ کروں اور نیکوں میں شامل ہو جاؤں (سورۃ المنافقون )یہ نہیں کہے گا کہ۔۔عمرہ کروں گا ،نماز پڑھوں گا،روزہ رکھوں گا۔ علماء نے کہا کہ :میت صدقہ کی تمنا اس لئے کرے گی کیوں کہ وہ مرنے کے بعد اس کا عظیم ثواب اپنی آنکھوں سے دیکھے گی۔ اس لئے صدقہ کثرت سے کیا کرو۔ بیشک مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا اور اب اس وقت جو صدقہ کرسکتے ہیں 10 سیکنڈ کے اندر، وہ اس میسج کو نصیحت کی نیت سے پھیلائے ۔اچھی بات بھی صدقہ ہے ۔
……………
افسانچہ/الو کا پٹھا: بن بلائے مہمانوں کی آمد کا سن کر لمحہ بھر کے لیے چودھری صاحب حقے کا کش لگانا بھول گئے !بے چارے نام کے ہی چودھری تھے ، آمدنی محدود تھی، اور اخراجات زیادہ، سفید پوشی کا بھرم رکھنا دشوار ہو گیا تھا۔مہمان کمرے میں آبیٹھے ،تو کچھ دیر بعد وہ باہر نکلے اور نوکر کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔گھر میں تو سبزی ہے یا دالیں”نوکر نے دبی آواز میں کہا،”وہ مرغی کس کی پھر رہی ہے؟ ” انہوں نے صحن کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”ہمسائیوں کی ہے ،دانہ دنکا چگنے آ جاتی ہے ۔دانہ چگنے یا بیٹیں کرنے ؟پکڑ اور ذبح کر اسے ،‘‘ انہوں نے رعب دار آواز میں کہا اور اندر چلے گئے ۔وہ مہمانوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ نوکر نے دروازہ بجا کر انہیں باہر بلایا اور ڈرتے ،ڈرتے کہا،چوہدری جی، ذبح کرتے ہوئے گردن علیحدہ ہو گئی ہے ”مرغی حرام ہو گئی ہے جی‘‘ ”الو کا پٹھا‘‘چوہدری صاحب کا پارہ چڑھ گیا،”پہلے حلال تھی کیا؟پکا سالن‘‘!
……………
کیا واقعی؟ :کراچی کو "شہدا ء قبرستان”اور مادھوری، موٹا، سر پھٹا اور لنگڑا، کانا والے القاب دینے والے کبھی ایک میگا واٹ بھی بجلی نہیں دے سکے اور دیتے کیسے ؟ کیونکہ”1۔ تابش گوہر۔ سی ای او کے الیکٹرک اکتوبر 2014 تک، تنخواہ 40 لاکھ۔ نسرین جلیل کا بھانجا۔2۔ شہباز بیگ ۔ ڈائریکٹر ٹریننگ کے الیکٹرک، تنخواہ 5 لاکھ، خوش بخت شجاعت کا بیٹا۔3۔ سید عابد علی۔۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے الیکٹرک تنخواہ 5 لاکھ، ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار علی کا بھائی۔4۔آصف حسین صدیقی۔ ریونیو ڈائریکٹر کے الیکٹرک تنخواہ 7 لاکھ، ایم کیوایم کے رہنما عادل صدیقی کا بھائی۔5۔ ابرار حسین ۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے الیکٹرک ،تنخواہ 5 لاکھ، ایم کیوایم لیبر ڈویژن کا ذمہ دار۔۔۔ لیکن ہمیں کیا۔۔۔ گرمی برداشت کرلیں گے کیونکہ شیشہ نہیں فولاد ہیں ہم ‘مہاجر کی اولاد ہیں ہم ۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے