جیل بهرو تحریک اور ہماری ذمہ داری

یہ تو سبهی لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں انصاف کی بنیاد پر قانون نہ بنتا ہے اور نہ ہی نافذ ہوتا ہے ، ہماری ریاست کے اندر صرف غریب لوگ ہی اندهے قانون کے زیر سایہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،آپ ہمارے ملک کے اقتدار اعلی سے لے لیکر نیچے تک کا بغور جائزہ لیں آپ کو دوچیزیں سب سے نمایاں دکهائی دیں گے ،اندها قانون اور قانون کے دائرے میں فقط غریب عوام – امیر طبقے قانونی دائرے سے خارج ہوں گے خواہ وہ کتنے بڑے جرائم کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوجائیں، جس کی آشکار مثال یہ ہے کہ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم بنے اور تینوں مرتبہ ملک کے آئین کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں اپنی وزارت کی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی وزارت کے عہدے سے معزول کیاگیا، آخری بار تو قومی خزانہ لوٹ کر وہ ڈاکو اور چور بن کر عہدے سے فارغ ہوئے، لیکن اس کے باوجود اب بهی وہ اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں اور عوام کی ایک کثر تعداد بهی ان کے ساتهہ دے رہی ہے، چونکہ اس ٹولے کو جناب نواز شریف نے اپنے دور قیادت میں خوب نوازا ہے، انہیں اچهی طرح کهلایا پلایا ہے، حد یہ ہے کہ اب میاں صاحب اپنے جرم کو چهپاکر ملک میں دوبارہ اپنی سیٹ بحال کرنے کے لئے اپنے حواریوں اور قریبی احباب کو استعمال کرکے ملک کے آئین اور قانون کی شقوں میں تبدیلی لانے کے لئے سعی لاحاصل کررہے ہیں، جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے

اور دوسری طرف؛ اس ملک میں اقلیتی گروہ کو نشانہ بنانے کی سنت قبیحہ پر عمل کرنے کی شدت میں کمی کے بجائے آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے، جو سوفیصد آیین پاکستان کی کهلی مخالفت ہے – پاکستان میں اس ظلم کا سب سے ذیادہ شیعہ کمیونٹی نشانہ بنی اور بنتی جارہی ہے، ماضی سے لے کر اب تک پاکستان کے اندر سب سے ذیادہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے دہشتگردی کی آگ میں جلے ہیں، لیکن جب شیعہ قتل عام کے خلاف پوری دنیا سے آواز اٹهی ،حکومت پر دباو بڑها، مزمتی بیانات موصول ہوئے، تو حکومت ذرا حرکت میں آئی، جس کے نتیجے میں دہشتگردی کی شدت میں تھوڑی کمی آئی، مگر اقلیتی گروہ کو ستانے کا سلسلہ بند نہیں ہوا ،البتہ ظلم کی نوعیت بدلی ضرور ہے- اب پاکستان میں بلاجواز اقلیتی گروہ کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، بغیر کسی دلیل وثبوت کے شیعہ مسلک سے تعلق رکهنے والے جوانوں کو جہاں سے ملے گرفتار کرکے غائب کرتے ہیں ،کہاں لے جاتے ہیں؟ کونسی جگہ انہیں بند رکهتے ہیں؟ کس جرم میں پکڑ کر لے جاتے ہیں؟ کسی کو کوئی پتہ نہیں ،اب تک سو سے اوپر کی تعداد میں شیعہ جوان لاپتہ ہیں، جس سے ان کے غریب والدین اور گهر والے بہت پریشان ہیں، اپنے بچوں کے اچانک غائب ہونے کی وجہ سے روروکر ان کے آنسو ختم ہوچکے ہیں، ان کی صحت خراب ہورہی ہے، کیا اس سے بهی اندها کوئی قانون ہوسکتا ہے؟ آخر یہ کیا طریقہ ہے جس پر زرہ برابر شک ہوجائے اسے حکومتی کارندے پکڑ کر نامعلوم زندانوں میں بند کردیں، یہ جنگل کا قانون تو ہوسکتا ہے، انسانی معاشرے کا کوئی قانون اس کام کی اجازت نہیں دیتا ہے آپ بلاجواز بے گناہ افراد کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کرکے ان کا جینا حرام کردیں اور کئی سال گزرنے کے باوجود ان کے گهر والوں کو اتنا بهی پتہ نہ چلیں کہ وہ کہاں ہیں؟ کس حالت میں ہیں ؟ زندہ بهی ہیں یا نہیں ؟ منطق اصول اور قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ مشکوک افراد کو پکڑیں ضرور؛ لیکن انہیں لاپتہ کرکے نہ رکهیں، بلکہ انہیں عدالت میں پیش کردیے جائیں، ان کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ٹهوس ثبوت اور شواہد اکهٹے کردیئے جائیں اور پهر عدالت کے قانون کے مطابق ان کے بارے میں فیصلہ صادر کریں –

اگر مشکوک افراد کو پکڑ کر زندان میں بند کرنا ہی ہے تو وہ افراد جنہیں پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے وہ دہشتگرد ہیں، دہشتگردی کی بڑی کاروایوں میں ان کے هاتهہ ہیں ،جن کا کام ہی دہشتگردوں کی تربیت کرکے ملک کے طول وعرض میں دہشتگردی کی کاروائی کروانا ہے ،وہ آذاد کیوں ہیں؟ اگر بعض نامور دہشتگرد کو وقتی طور پر پکڑ بهی لیتے ہیں تو ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوتی ہے ؟ ملک میں دہشتگردوں کا دندناتے پهرنا اس بات پر ٹهوس شاہد ہے کہ ہماری حکومت پوری منصوبہ بندی کے ساتهہ ملک میں اقلیتی گروہ کو کچلنے کے درپے ہے، ملک کا قانون اندها ہے اور یہ اندها قانون حقیقی مجرموں امیروں کے لئے نہیں صرف غریب طبقوں کے لئے ہے ، بلاجواز بے گناہ افراد کی گرفتاریوں سے تنگ آکر اب غریب طبقے اپنی بساط کے مطابق ان مظلوموں اور اسیروں کا دفاع کرنے کے لئے میدان میں نکلے ہیں ، *جیل بهرو تحریک* کا آغاز ہوا ہے، جو یقینا ایک مثبت اقدام ہے- اس لئے کہ ہمارے دین کی اساسی تعلیمات میں یہ سرفہرست ہے کہ ظلم کرنا بهی بڑا گناہ ہے اور ظلم سہنا بهی گناہ کبیرہ ہے ، پوری قوم کو احساس بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تحریک کا حصہ بن کر مظلوم افراد کے دفاع میں آواز بلند کرنا ضروری ہے، یہ درس کربلا ہے، نواسہ رسول کی عملی سیرت؛ باطل کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے

حسین ابن علی نے فرمایا:
”کیا تم نہیں دیکھتے !کہ حق پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے اور باطل پر عمل سے لوگوں کو روکا نہیں جا رہا ہے ! مگر تم نہیں دیکھتے کہ کس طر ح سنت رسولۖ کوپامال کرکے اس کا مذاق اڑایا جا رہا ! اے لوگو!اے حق کی حمایت کرنے والواُٹھو! اور حق کی حمایت کرو ،آج حق و باطل کی جنگ ہے ،ہمارا قیام کفر و شر سے ہے ،آج ایک طرف فرزند رسول ۖ ہے تو دوسری مجسم باطل یزید، میں فرزند علی تمہیں حق کی حمایت اور اعلائے کلمة الحق کی دعوت دیتا ہوں آؤ اور سسکتی اور پسی ہو ئی انسانیت کو نجات دو اسلام دم توڑنے والا ہے اگر اسے یزید کے چنگل سے نہ نکالا گیا تو عنقریب اسلام کا خاتمہ ہو جا ئے گا ۔ہاں! اگر تم نے ہماری باتوں کی اجابت کی اور ہمارے دعوت پر لبیک کہا تو میں تمہیں راہ راست کی رہنمائی کروں گا ۔
نیز فرمایا:”یقیناً!میں ان حالات میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور مجبور ہو کر ظالموں کے ساتھ رہنا زندگی کی توہین سمجھتا ہوں ۔” ”کفیٰ بک ذلّا ان تعیش و ترعما۔””یہ ذلت تمہارے لیے کافی ہے کہ زندہ رہو اور تمہاری ناک رگڑدی جا ئے! میں حسین بن علی اس بات کو کبھی گوارا نہیں کر سکتا ،میں عزت کی زندگی کے لیے سر کٹا سکتا ہوں لیکن جس میں سر جھکانا پڑے وہ زندگی میرے لیے کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔”

فکرِ حق سوز یہاں کاشت نہیں کر سکتی
کربلا تاج کو برداشت نہیں کر سکتی
حسین عزم کو جب تابناک کرتا ہے
جلا کے خرمن باطل کو خاک کرتا ہے
حسین سعی تجلی میں کامیاب ہوا
لہو میں ڈوب کے ابھرا تو آفتاب ہوا
کربلا ہر تیر گی میں مطلع انوار ہے
ساری دنیا سو رہی ہے کربلا بیدار ہے
یہ روز کے مظاہرے، ریلیاں اور ملک و شہر میں ظلم و ستم کے خلاف لوگوں کے فلک شگاف نعرے ،یہ برائت و بیزاری! ظالم کو اس کے کیے پر شرمندہ ہی تو کرنا ہے جیل بهرو تحریک بهی ظلم کے خلاف اٹهی ہوئی حسینیت کی آواز ہے ہر باشعور افراد کو چاہیے اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اس میں اپنی شمولیت کو یقینی بنائیں اور بے گناہ اسیروں کو رہائی دلانے کے لئے جیل بهرو تحریک کے ساتهہ بهر پور تعاون کریں

*ارسطو کے کچهہ قابل غور جملے*
جہالت کا مقابلہ کرنا چاہیے، اور انفرادی مفاد کو اجتماعی مفاد کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
انسان کو انصاف و ظلم، اور سچ و جھوٹ میں ہمیشہ تمیز روا رکھنی چاہیے۔
ظلم کرنا ظلم سہنے سے بدرجہ ہا بہتر ہے۔
بدی کرنے کے بعد سزا پانا بہ نسبت بچ کر نکل جانے سے بدرجہ ہا بہتر ہے۔
سچا آدمی موت سے نہیں بلکہ بد اعمالی سے گھبراتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے