سرکاری ملازمین کی بیواوں کی غیر فطری زندگی

کچھ عرصہ قبل سی ایس ایس کے نتائج کا اعلان ہوا تو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ دس ہزار امیدواروں میں سے پاس ہونے والے دو سو خوش نصیبوں میں سے میرے ایک قریبی اور محترم دوست آغا نجیب الرحمن کے صاحبزادے بھی شامل تھے۔ فون پر مبارک باد دی توانھوں نے شکریہ کے ساتھ اپنے آفس میں چائے اور گپ شپ کیلئے دعوت دے ڈالی۔بات سے بات نکلی اور گفتگو کا رخ امتحان میں کامیاب ہونے والوں کی کم ہوتی ہوئی شرح کی طرف چلا گیا۔ آغا صاحب کہنے لگے کہ مقابلے کے امتحانات امیدواروں کیلئے اب پہلے کی طرح زیادہ پر کشش نہیں رہے کیونکہ اکثر غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہنے والی روائیتی افسر شاہی سے کہیں زیادہ مراعات ،ترقی کے مواقع اورتنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر با صلاحیت نوجوان کارپوریٹ سیکٹر یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا رخ کرتے ہیں ۔میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر اچھی پوسٹنگ کا نہ ملنا نیز تقرری و تبادلے میں سیاسی مداخلتوں نے اچھے اداروں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا سول سروس کی طرف رجحان کم کر دیا ہے۔ایک دور تھا جب با صلاحیت طالبعلموں کی پہلی ترجیح سول سروس ہو اکرتی تھی کیونکہ تب مواقعوں کا فقدان ہوتا تھا لیکن اب لائق طلباء کیلئے اندرون و بیرون ملک پرکشش تنخواہوں پر کام کرنے کے لاتعداد مواقع ہیں جس کی وجہ سے مقابلے کے امتحانات میں ذہین طلباء کی دلچسپیاں کم ہو رہی ہیں ۔ آج کا نوجوان بہت حساس ہے ، وہ ایک ایسا پلیٹ فارم چاہتا ہے جہاں اسے اپنی صلاحیتیں دکھانے کیلئے زیادہ دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جبکہ افسر شاہی میں انھیں بسا اوقات قانون کی پاسداری کی بجائے اپنے سینئرز کی پسند نا پسند کا لحاظ کرنا پڑتا ہے سو ایسے ماحول میں ان کی حساسیت اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے ۔

اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے توسول سروس کا سٹرکچر ہر دور میں مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوا ہے اور ہر حکومت نے سول سروس کو بااختیاراور مضبوط بنانے کی بجائے اپنا تابع مہمل بنانے کی طرف زیادہ توجہ دی ہے جس کی وجہ سے اکثر بیوروکریٹس میں بددلی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ٹرانسفر، پوسٹنگ، ترقی اور سالانہ کارکردگی رپورٹس وغیرہ کا انحصار زیادہ تر کسی بھی بیوروکریٹ کی پبلک ریلیشن پر ہوتا ہے ۔ طاقتور اور حالات کو سمجھنے یا حالات سے سمجھوتہ کرنے والے افسر آگے نکل جاتے ہیں جبکہ کمزور ، شریف اور سادہ طبیعت کے افسران ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ خود مختار یا نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کو دوہری اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ جس گریڈ میں بھرتی ہوتے ہیں عام طور پر اسی گریڈ میں ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ اصلاح احوال کیلئے متعدد بار پالیسیاں بھی بنی ہیں ، یہاں تک کے سپریم کورٹ کی رولنگز اور فیصلے بھی موجود ہیں لیکن شائد مناسب عمل درآمد نہ ہونے کے سبب معاملات جوں کے توں ہیں۔ منسٹری آف پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سول سروس میں تعمیری تبدیلیاں لانے کیلئے متعدد تجاویز پر غور کر رہی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کیلئے بہت محنت درکار ہو گی کیونکہ ماضی میں بھی کئی اصلاحات کی گئی تھیں لیکن عملدرآمد کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی نہ ہونے کے سبب کوئی مثبت نتائج سامنے نہ لا ئے جا سکے ۔

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین جس پیشے سے منسلک ہوتے ہیں فطری طور پر ان کے بچے بھی اس پیشے کے حوالے سے بہتر نتائج دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بیوروکریٹس کے بچے کیونکہ ایسے ماحول اور تربیت کے عادی ہوتے ہیں تو امید ہوتی ہے کہ وہ سول سروس میں آ کر دیگر امیدواروں کی نسبت اچھی پرفارمنس دیں گے لیکن اب بیوروکریٹس بھی اپنے قابل بچوں کو سول سروس کی بجائے دیگر شعبوں کی طرف بھیجتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس میں دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمین اور انکے بچوں کیلئے کچھ ترغیبات ہوتی تھیں جو اب یا تو ختم کردی گئی ہیں یا اس حوالے سے پالیسیاں تبدیل کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین کے بچوں کیلئے سول سروس کے شعبے میں وہ کشش نہیں رہی۔

مثال کے طور پر سرکاری ملازمین کیلئے سب سے پر کشش ترغیب سرکاری مکان کی الاٹمنٹ ہے ۔ جس کیلئے پہلے یہ پالیسی تھی کہ اگر کسی ملازم کا بیٹا یا بیٹی بھرتی ہو جاتے تھے تو والدین کے ریٹائرمنٹ کے بعد مکان انکے گورنمنٹ ملازم بچوں کے نام منتقل ہو جاتا تھااور اس میں گھر کی کیٹیگری کی تخصیص نہیں ہوتی تھی ۔ سرکاری ملازمین کے بچے مروجہ پالیسی کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے اپنے ملازم والدین کے گھر الاٹ کرا لیتے تھے جبکہ اب اس عمل میں تخصیص کر دی گئی ہے ۔ اب سینئر ملازمین جن کو بالعموم کیٹیگری ٹو کے گھر الاٹ ہوتے ہیں جبکہ ان کے بچوں کو کیٹیگری تھری کے گھروں کی الاٹمنٹ کی سہولت(entitlement) میسرہوتی ہے ۔اگر ان نوجوان ملازمین کے سرکاری ملازمین والدیا والدہ کی ریٹائرمنٹ کی صورت میں رعائیت (Concession) کے طور پر کیٹیگری ٹو کے گھروں میں ہی قیام پزیر رہنے دیا جائے تو اس سے بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا۔اب صورتحال یہ ہے کہ انکے والدین کو ریٹائرمنٹ پر کیٹیگری ٹو کے گھر سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں کیونکہ جب تک بچے سول سروس میں آتے ہیں ان کے والدین ریٹائرمنٹ کی مدت کو پہنچ چکے ہوتے ہیں ۔ اب جس چیز کی آس پر وہ اپنے بچوں کو سول سروس میں لاتے ہیں وہ آس ہی باقی نہ رہے تو ان کی سول سروس میں دلچسپی کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ اس پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔

ایک اور مثال جس میں چند ماہ قبل وزارت داخلہ کے ایک ملازم محمد اقبال کی خود کشی کا واقعہ بھی سرکاری ملازمین کو درپیش ایک اور گھمبیر مسئلے کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ جس میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچے اس ملازم نے گھر کی الاٹمنٹ کیلئے بیٹے کو ملازمت دلوانے کی کوشش کی کیونکہ اس کے پاس سر چھپانے کیلئے کوئی جگہ نہ تھی جب کہ محکمے کی طرف سے اسے کہا گیا کہ اس کے بیٹے کی ملازمت صرف اس کی دوران ملازمت وفات کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری ملازمین کو جو چھوٹ پہلے ملی ہوئی تھی ایک ترغیب کے طور پر اسے برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔

اسی طرح ایک بڑا مسئلہ دوران ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد فوت ہوجانے والے سرکاری ملازمین کا بھی ہے۔سرکاری ملازمین کی دوران سروس وفات پر اس کی بیوہ کو نقد مالی حقوق کے ساتھ ساتھ پنشن کی صورت میں حکومت کی طرف سے مستقل مالی معاونت بھی ملتی ہے لیکن بیوہ کا دوسری شادی کر لینے پرپنشن وغیرہ کا استحقاق ختم کردیا جاتا ہے۔کئی نوجوان بیوائیں مراعات کے چھن جانے کے ڈر سے دوسری شادی نہیں کرتیں اور ایک اذیت ناک غیر فطری زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔اگر حکومت کی طررف سے ایسا قانون بنا دیا جائے کہ بیوہ کی دوسری شادی پرنصف مراعات اسے ملتی رہیں اور اگر اپنے مرحوم شوہر سے ہونے والی اولاد بھی ساتھ رہے تو پوری مراعات ملتی رہیں تو کئی جوان بیوائیں دوسری شادی کے بعد بھی ایک اعزاز اور اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے پر تیار ہو جائیں گی۔

خصوصا ہمارے سیکیورٹی فورسز کے نوجوان جام شہادت نوش کر جاتے ہیں اور اکثر ایک دو بچوں کے ساتھ ان کی نوجوان بیوائیں رہ جاتی ہیں اور زندگی بھر دوسری شادی نہیں کر پاتیں۔ جو بیوہ خاتون مرضی سے شادی نہ کرے تو یہ اس کا فیصلہ ہے لیکن مراعات کے چھن جانے کے خوف سے دوسری شادی نہ کرنے والی بیوائیں کم از کم غیر فطری زندگی سے نجات پا جائیں گی۔ایسے بہت سے دیگر مسائل بھی ملازمین کو درپیش ہیں ۔ کم تنخواہ اور وسائل کے ساتھ سرکاری ملازمین اپنی تمام عمر حکومت کی خدمت میں گزار دیتے ہیں ایسے میں حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان کی ضروریات کااحسن طریقے سے خیال رکھا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے