بھارت کے سب سے بڑے صوبے‘ اتر پردیش میں اقلیتوں میں مسلمانوں کی آبادی کثیر ہے۔ گزشتہ انتخابات سے لے کر‘ آج تک یہی صوبہ متعصب ہندوئوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ تمام متعصب ہندو تنظیموں نے یوگی آدتیہ ناتھ کو‘ جو ایک مذہبی انتہا پسند ہے‘ وزیر اعلیٰ بنایا۔ اس یوگی نے عملاً یوپی کو ہندو صوبے میں بدل کے رکھ دیا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان دودھ کے لئے بھی گائے لے جاتا ہوا نظر آئے تو آر ایس ایس کے غنڈے اسے گھیر کے انتہائی اذیت ناک موت دیتے ہیں۔ یو پی میں نا ممکن ہو گیا ہے کہ وہاں کوئی گائے یا بھینس کا گوشت کھا سکے۔ زیر نظر مضمون میں کلدیپ نیئر نے اس تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
”اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ‘ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ وہ گورکھ ناتھ مندر کے مہاپروہت کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے مہینے میں پانچ دن کی چھٹی کیا کریں گے۔ ٹی وی چینلز نے ان کی تقریر کے اس حصے کو‘ صرف ایک بار دکھایا۔ لگتا ہے بھارتیہ جنتا پارٹی نے چینلز کو یہ خبر ہٹا دینے کے لئے دبائو ڈالا یا خود وزیر اعلیٰ کو اتنی الجھن محسوس ہوئی کہ انہوں نے اپنا بیان واپس لے لیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر اخبارات میں شائع نہ ہو سکی۔ یوگی کا کہنا تھا کہ وہ صوبے کے وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ‘ مہا پروہت بنے رہ کر‘ مذہبی فرائض انجام دیتے رہیں گے لیکن یہ تو صرف عوام کو دکھانے کے لئے ہے‘ بصورت دیگر وہ مہا پروہت بنے ہوئے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے منصب پر بھی قائم ہیں۔ تاہم ایک پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تنائو کا ماحول بنا ہوا ہے۔ زیادہ تر مقامات پر فساد جیسی صورت حال ہونے کی وجہ سے نصف سے زیادہ آبادی‘پولیس کی سخت نگرانی میں ہے۔حالات اتنے خراب ہیں کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ہونے کے باوجود‘ مرکز نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بدقسمتی سے وزیر اعلیٰ یوگی‘ کھلم کھلا مہنت کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور ساتھ ہی ان کاموں کو بھی وزیراعلیٰ کے طور پر انجام دے رہے ہیں‘ جنہیں وہ اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں۔ یہ صورت حال مضحکہ خیز ہے اور مخالف پارٹیاں بجا طور پر وزیراعلیٰ کے منصب کی بھگوا کاری کے لئے یوگی پر تنقید کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ آر ایس ایس کی پشت پناہی اتنی مضبوط ہے کہ وزیر اعلیٰ کسی بھی متعصبانہ اور جانب دارانہ عمل سے چونک نہیں رہے ہیں۔ لیکن اس سے پیشانی پر بل نہیں پڑنا چاہئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے‘ یوگی کا تقرر سیاسی مبصرین کے لئے ایک حیرت ناک واقعہ تھا۔ یو پی کی انتخابی مہم کے دوران‘ سب سے بڑے مہم کار وزیر اعظم مودی نے بڑی حد تک ترقی کے منشور پر توجہ مرکوز کی تھی۔ انتخابات کے نصف مرحلے تک فرقہ وارانہ تقریروں اور الفاظ کے استعمال سے ہندو ووٹ پکے کرنے کی کوششوں کے باوجود یہ بات درست تھی‘ لیکن کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد یا واقعہ رونما نہیں ہوا جیسا کہ 2014ء کے انتخابات سے پہلے ہوتا تھا لیکن اس وقت کھل کر سامنے آنے والی بات یہ تھی کہ اگر وعدے کے مطابق یو پی میں‘ بی جے پی کے ہاتھوں ترقی ہو بھی تو 2019ء کے انتخابات جیتنے کی راہ‘ فرقہ وارانہ ارتکاز کے ذریعے ہی ہموار ہو گی۔ یہی وہ پہلو ہے جس کے لئے اپنی وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ جملہ بازیوں‘ جن میں جاٹوں کی مخالفت کے مقابل‘ ہندو اور خصوصاً دیگر پسماندہ طبقوں کے ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے ووٹنگ سے پہلے مغربی یو پی میں کی گئی لفاظی بھی شامل ہے۔ اس کے لئے قومی سیاست کا مانوس چہرہ یوگی ہی ہے۔ شاید یہ بات بھی لوگوں کے علم میں نہ ہو کہ یوگی کس طرح 1990ء کی دہائی کے اواخر میں شہرت کی بلندی پر پہنچے؟ اور اس خطہ کی سیاست پر حاوی اور 1980ء کی دہائی کی اعلیٰ ذات کے مافیا کو بتدریج ہٹا دیا۔ اس مافیا کو وسیع سرپرستی حاصل تھی اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اس کے پختہ رسوخ بھی تھے لیکن پھر بھی اس کے فرقہ وارانہ روابط نہیں تھے۔ اس مافیا کے زوال سے یوگی کو جگہ بنانے کا موقع مل گیا جس کے نتیجے میں ذات مذکور پر مافیا گردی نے مذہبی جرائم کی نئی شکل اختیار کر لی۔ توازن برقرار رکھنے کے لئے‘ دیگر پسماندہ طبقوں اور دلتوں سے تعلقات استوار کرنے میں کامیابی کے علاوہ‘ یوگی نے بااثر اعلیٰ ذاتوں تک رسوخ رکھنے والے راجپوت ہونے کا بھی فائدہ اٹھایا۔ اس طرح چھبیس سالہ یوگی کو‘ گورکھپور لوک سبھا حلقہ انتخاب سے بی جے پی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا گیا۔
ایک نمایاں قوت بن کر ابھرنے اور خطہ کی سیاست کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی وجہ سے 2019ء میں بی جے پی کی فتح میں مدد کے لئے‘ یوگی سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مرکز میں اقتدار پر قابض ہونے کے لئے‘80 لوک سبھا نشستوں والے اتر پردیش میں کلیدی اہمیت رکھتے تھے۔ پھر بھی قیاس آرائیاں بہت ہوئیں۔ کیونکہ مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ دونوں ہی ریاست کی قیادت کے لئے‘ کسی ترقیاتی شبیہ والے شخص کی تلاش میں تھے لیکن آر ایس ایس کو بالادستی حاصل ہوئی اور اس نے مودی ا ور امیت شاہ کو راضی کر لیا کہ وہ یوگی کو‘ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے قبول کر لیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ بی جے پی‘ آر ایس ایس نے یوگی کا انتخاب یوپی کی سربراہی کے لئے کیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ 2000ء کی دہائی میں بی جے پی نے نہ صرف اتر پردیش بلکہ ملک کے کئی صوبوں میں غیر برہمنی ہندوتوا تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں اور 1990ء کی دہائی کے اوائل میں‘ بی جے پی بڑی حد تک اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی پارٹی تصور کی جاتی تھی۔ کم از کم 1990ء کی دہائی کے وسط سے‘ یو پی میں بڑی اکثریت کی تشکیل کرنے والے غیر یا دو دیگر پسماندہ طبقوں اور غیر جاٹ دلتوں کو پارٹی کے دائرے میں شامل کرنے کی شعوری کوششیں ہوتی رہی ہیں‘ جن کا مقصد سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔
وزیر اعلیٰ کو چاہئے کہ ریاست کو درپیش فوری مسائل کی طرف .توجہ دیں مثلاً گورکھپور کے ہسپتال میں ہوئی اموات اور بنارس ہندو یونیورسٹی کا سلگتا ہوا مسئلہ‘ جہاں طلبا مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ یوپی کے تاریخی مقامات کی فہرست میں سے ہمارے تہذیبی ورثے تاج محل کو ہٹا دینے کے حالیہ ترین مسئلے سے تنازعات کے باب میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جز وقتی وزرائے اعظم رکھنے کے تلخ تجربے سے ہم گزر چکے ہیں۔ جب بہت سے حل طلب مسائل اکٹھے ہو گئے تو انہوں نے پارٹی یا پارٹیوں کے اختلاط کو الجھن میں ڈال دیا اور کام کچھ بھی نہ کیا۔ یہ بات بی جے پی اور یوگی کو یاد رکھنی چاہئے کہ پارٹی نے اسمبلی الیکشن ترقی کے وعدے پر جیتا تھا۔ وزیر اعلیٰ کے منصب کو شدید ترین نقصان اس خیال سے پہنچا ہے کہ یہ ایک عارضی بندوبست ہے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی کی اپنے تمام تر حفاظتی عملے کے ہمراہ‘ مہاپروہت کی حیثیت سے مذہبی رسوم انجام دینے کے لئے لکھنو سے پانچ دن کی غیر حاضری ‘ عدالت عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ عوامی رقم‘ مذہبی مقصد کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی۔ ڈیموکریسی کے تصور کو اس سے پہنچنے والے نقصان کے خلاف احتجاج کے لئے مفاد عامہ کی عرضی داخل کی جانی چاہئے۔ بصورت دیگر بھی اس سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ یوگی کی اولین حیثیت مہنت کی ہے یا وزیر اعلیٰ کی؟‘‘