سر رہ گزر نیت نیک تو ایک کوتوالِ شہر کافی

نئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے:سب کا احتساب ہوگا، خواب پورے نہیں کرسکتا، شریف خاندان کے کیسز میرٹ پر چلیں گے، پراسیکیوشن خود مانیٹر کروں گا، جلد تبدیلی نظر آئے گی۔ قوم نے جو خواب دیکھا تھا اسے 70برس بیت گئے، یہ خواب سندھ کابینہ کے وزیر خواب کا خواب نہیں تھا تمنائے شباب تھا خوشحال زندگی کا استحقاق تھا، تعبیر دینے والی طالع آزما اشرافیہ کے شرفاء میدان سیاست میں اپنی دولتمندی کی ڈگری لیکر کوالیفائی کرگئے اورانہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ محکموں اداروں کو اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ ان کو پوچھ سکیں، ان کی غلطیوں کو پکڑ سکیں، چور دکھا کے چوری نہیں کرتا رات کا انتظار کرتا ہے مگر ہمارے چوروں نے رات کا اہتمام کیا، قوم کا خواب قائد و اقبال کا خواب ہے اسے پورا کرنا ہی سب کا احتساب ہے، اپنی آخری بات کہ جلد تبدیلی نظر آئے گی، کہہ کر تو چیئرمین نیب نے ہمارا ’’تراہ کڈ‘‘ دیا کیونکہ تبدیلی کو اس قدر بدنام کردیا گیا ہے کہ اب یہ لفظ سنتے ہی وجود میں تبدیلی معکوس دوڑنے لگتی ہے۔ چیئرمین نیب کا استقبال ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں کہ وہ تبدیلی کی عزت و حرمت بحال کر کے تبدیلی کی رونمائی بھی کر کے دکھائیں گے کیونکہ ہم نے بال سفید کر لئے اس تبدیلی کے دیدار کے انتظار میں، ایک لفظ میرٹ جو انہوں نے کہا وہی جان غزل ہے، کہیں جواب آں غزل ثابت نہ ہو، اگر میرٹ، احتساب بیورو کا چلن رہا تو پھر یہاں پر بدچلن پر کمند پھینکنا مچھلیاںپکڑنے کے مترادف ہوگا، حکمران یہاں کماتے اور باہر کھاتے ہیں، علاج، تعلیم، بچوں کی رہائش تک کیلئے اس ملک کو کسی قابل نہیں سمجھتے، اگر اداروں محکموں کمیٹیوں کمیشنوں، تحقیقاتی ٹیموں کی کثرت ہو تو سمجھ لیں کہ یہ سب کھانے پینے کے اڈے ہیں، گڈ گورننس کیلئے اچھی حکمرانی ہی کافی ہوتی ہے، چند ایک اہم ترین وزارتیں ہوتیں، چند وزیر ، مشیر ہوتے تو یہاں وزارتوں کیلئے میراثی اکٹھ نہ کرتے، اقتدار و استحصال کی ہوس نہ ہوتی، نیب بے عیب ہوگی تو یہ ملک چند ہفتوں میں زہریلے کیڑوں سے پاک ہوسکتا ہے، انصاف میں تاخیر ہی نے انصاف کا قتل کیا، حکمرانی درست نہ کی، اس کے شعبے بڑھائے گئے، اس ملک میں درستگی لانے والوں کی خاندانی منصوبہ بندی کی جائے، سارا شہر درست کرنے کیلئے ایک کوتوالِ شہر ہی کافی ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
آبادی بم
آج خوشحال ترقی یافتہ ملکوں نے اپنی آبادی کم کر کے ہمیں مزدور رکھ لیا، ذرا غور کریں کہ عقل کل دانائے سبل ﷺ نے اپنے اس فرمان میں ہمیں کیا پیغام دیا کہ ’’تمہاری آبادی بہت زیادہ ہو جائے گی مگر اس کی حیثیت جھاگ جیسی ہوگی‘‘۔ آبادی اگر کم ہوتی اور صلاحیت زیادہ تو آج بھی دوسری قوموں کو اپنے ہاں مزدوری کیلئے ویزے جاری کرتے، ہمارے ملک بھی بیروزگاروں، غرباء و مساکین کی جنت ہوتا، مگر ہم نے سارا زوراپنے لئے غلط حکمرانوں کے انتخاب اور کثرت اولاد پر صرف کیا، جب بچہ پیدا ہو جائے تو ہم پر اس کی تعلیم ، بہتر خوراک، پوشاک کی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے ، اور اگر بچہ ایک نہیں فوج بچگان ہو تو کم کیا زیادہ آمدن میں بھی اسے پالنا اور حکومت کیلئے ان کو اچھا نظام زندگی فراہم کرنا ممکن نہیں رہتا بلکہ آبادی میںاضافہ نقص امن کا خطرہ ہے، کم آبادی میں چور پکڑنا آسان اور کثرت میں چور بنانا آسان۔
٭٭٭٭٭
چھلنی اور لوٹے کی کہانی
آصف زرداری: خیبرپختونخوا میں ہر قسم کا فراڈ ہوا، خیبر بینک بھی نہ چھوڑا، ہمارے ہرسیاسی دور میں ہمیشہ چھلنی نے لوٹے سے کہا تم میں دو سوراخ ہیں اور اپنے سوراخ بھول گئی، زرداری جب اپنے حریفوں پر حرف زنی کرتے ہیں تو آنکھوں کے سامنے چھلنی لوٹا آ جاتا ہے، عوامی پارٹی پیپلز پارٹی نے عوام کے عشق میں عوام کیلئے کیا کیا نہ کیا، اب پرویز خٹک بحکم عمران خان اگر خیبرپختونخوا میں آغاز گناہ کرنے لگے ہیں، تو ان کو تربیت دیں کہ مہارت گناہ بھی آجائے، کیونکہ وہ تو اس میدان میں کوچ کا درجہ رکھتے ہیں، یہ ملک چوروں لٹیروں کیلئے بنا تھا یہی نظریہ ماہرین لوٹ مار ہے جو جاری و ساری ہے، اور مزے کی بات کہ چھلنی ایک ہے نہ لوٹا، سارا ملک چھلنی چھلنی، لوٹا لوٹا ہے، پھر گلہ کیسا کہ کیوں لوٹا؟ مجھے کیوں لوٹا؟
افسوس کہ 20کروڑ نفوس پر مشتمل جم غفیر قوم نہ بن سکا، نہ جانے ہم کس ڈگری کی بنیاد پر خود کو قوم قرار دیتے ہیں، ہم ایک ریوڑ ہیں اور ہر بار بھیڑیئے کو اپنا نگران چنتے ہیں، جب ہمیں لٹیرے اور محافظ میں فرق سمجھ نہیں آتا تو خود کو قوم کیسے سمجھ بیٹھے ہیں؟ آصف زرداری جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو لاڑکانہ پیپلز پارٹی بنا کر رکھ دیا تو اب وہ خیبرپختونخوا کیا کرنے گئے؟ کیا وہاں کوئی بھٹو شہید جیسا پاور شو کیا؟ یا ہوا؟ ایک ٹکڑی کارکنوں سے تو روٹی کا ایک ٹکڑا زیادہ طاقت رکھتا ہے، مگر ہم ان سے روٹی، کپڑا، مکان اور خان سے تبدیلی کا مطالبہ ہرگز نہیں کرینگے کہ یہ دونوں میرے آزمائے ہوئے ہیں، اسی لئے تو شرمائے ہوئے ہیں۔
چیئرمین نیب فٹ ہیں!
٭….سابق برطانوی وزیراعظم کیمرون نے امریکی کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی،
ہمیںکیا انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی میں تو ملازمت اختیار نہیں کی۔
٭….خواجہ آصف:گھر درست کرنے کا موقف کسی کو برا لگا تو کیا کروں؟
کسی کو کیا برا تھا لگنا اگر ایک بار ہوتا!
٭….چیئرمین نیب:فٹ ہوں، دوسری شادی بھی کرسکتا ہوں مگر کرنا نہیں چاہتا،
ڈر گئے ناں، دوسری کا کہہ کر یو ٹرن لے لیا۔
٭….عمران خان:جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیاں جائز میری قانونی ہے،
یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے میرا دوست بھی اچھا ہے برا میں بھی نہیں۔
٭….زرداری:تحریک انصاف والے ایک گائوں نہ بنا سکے نیا پاکستان کیسے بنائیں گے،
آخر تحریک انصاف والوں نے بھی تو خود کو آپکے برابر لانا ہے۔
٭….سعد رفیق:زرداری کی بریت قیامت کے آثار، شیخ رشید جوکر…. جملہ پورا نہیں کیا آخر میں یہ بھی کہہ دیتے اور میں بروکر۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے