راولپنڈی: پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ میرا کوئی بیان ذاتی نہیں پوری فوج کا موقف ہوتا ہے اس لیے وزیر داخلہ کے بیان پر انہیں بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا۔
راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے 15 سال میں ملکی سیکیورٹی کے لیے بہت اقدامات کیے ہیں۔ اب کوئی نوگوایریا نہیں ہے، امریکا کے ساتھ سیکیورٹی تعاون رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، اس سلسلے میں ہماری امریکیوں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، امریکا یا کسی اور ملک کے ساتھ کوئی مشترکہ آپریشن پاکستان میں نہیں ہوگا۔ بیرونی قوتیں جان لیں کہ سیکیورٹی سےمتعلق تمام پاکستانی اور ادارے ایک ہیں۔
غیر ملکی جوڑے کی بازیابی پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے امریکا سے ملنے والی انٹیلی جنس معلومات پر کرم ایجنسی میں ایک آپریشن کیا، امریکی سفیر نے ہم سے مغویوں کی بازیابی کے لیے مدد مانگی، ہماری ترجیح تھی کہ یرغمالیوں کو بحفاظت نکال لیا جائے ۔ اغواکار 2 گاڑیوں میں سوار تھے، فائرنگ کرکے ان کی گاڑیوں کے ٹائربرسٹ کئے، جس پر دہشت گرد گاڑیاں چھوڑ کر افغان مہاجرین کے قریبی کیمپوں میں گھس گئے۔ اگر آپ کے پاس کچھ دستاویزات ہیں اور آپ مہاجرین کے کیمپ میں چلے جائیں تو دہشت گرد کی شناخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کا واپس جانا ضروری ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے تنقید پر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ان کی نجی ٹی وی سے کی گئی بات پر کہا گیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیر ذمے دارانہ بیان دیا، وزیر داخلہ کے اس بیان پر انہیں بطور سپاہی اور پاکستانی دکھ ہوا۔ میرا کوئی بیان ذاتی نہیں پوری فوج کا موقف ہوتا ہے، میں اپنے الفاظ پر قائم ہوں ، میں نے کہا تھا کہ معیشت پر مل بیٹھ کر کام کرنا ہے، یہ نہیں کہا تھا کہ معیشت غیرمستحکم ہے۔ اگر سیکیورٹی اچھی نہیں ہوگی تومعیشت بھی اچھی نہیں ہوگی، مضبوط ملک بننے کے لئے سب کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سویلین حکومت ہی آرمی چیف کا تقررکرتی ہے، جمہوریت کو پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں، کوئی بھی کام آئین وقانون سے بالاترنہیں ہوگا، ریاست کے ادارے ہوتے ہیں، یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اداروں میں اختلاف رائے نہ ہوں لیکن فیصلہ حاکم وقت کا ہوتا ہے، سندھ اور پنجاب میں رینجرز کا آپریشن اس وقت تک نہیں ہوا جب کہ سویلین حکومت نے اس پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔