ہر بڑے شہر کی ایک شخصیت ہوتی ہے، جیتے جاگتے انسان کی طرح شہر بھی سانس لیتے اور دھڑکتے ہیں۔ ویسے تو ہر شہر ایک مخصوص ماحول اور خوشبو رکھتا ہے لیکن تاریخ کے سفر میں غیر معمولی اہمیت رکھنے والے شہروں کا معاملہ الگ ہے۔ ان شہروں کے ماحول اور شخصیت میں بلا کی اثر پذیری ہوتی ہے جو آپ کے حواس کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کسی شہر کی شخصیت کے خد و خال اس میں ایستادہ عمارتوں، پُلوں، سڑکوں، باغوں اور یادگاروں سے تشکیل پاتی ہے اور اسی سے شہروں کو صفاتی نام ملتے ہیں۔
بحیرہ بالٹک کے کنارے آباد روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ بھی ایسے ہی بے مثال شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر دراصل عظیم دریائے نیوا کے ڈیلٹا پر آباد ہے حالانکہ عموماً شہر بسانے کیلئے ایسی جگہ کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ ڈیلٹا وہ جگہ ہوتی ہے جہاں کوئی دریا سمندر میں گرتا ہے۔ سمندر کے نزدیک پہنچ کر دریا بہت سی شاخوں میں بٹ جاتا ہے جن کے درمیان خشکی کے چھوٹے بڑے قطعات ہوتے ہیں۔ روس کی تعمیر و ترقی میں سب سے اہم سمجھے جانےوالے بادشاہ زار پیٹر ایلکسیوچ نے ’جسے دنیا ’پیٹر دی گریٹ‘ کے نام سے جانتی ہے، خود نئے شہر کیلئے اس جگہ کا انتخاب کیا اور مئی 1703 کو پیٹرپال قلعہ اور شہر کی تعمیر کا مشترکہ سنگ بنیاد رکھا۔ شہر کے وسط میں بہتا دریائے نیوا اور شہر کے وجود میں شریانوں کی طرح پھیلی ان گنت نہروں کی وجہ سے اسے ’شمال کا وینس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی سینٹ پیٹرز برگ جائے اور اس کی محبت میں گرفتار نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ فضاءسے دیکھیں تو سینکڑوں آبی گزرگاہوں میں بٹا ہوا شہر چھوٹے بڑے جزیروں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ ان جزیروں کو آپس میں منسلک کرنے کیلئے جابجا پل تعمیر کرنا پڑے اور ان پلوں کو تعمیر کرنےوالوں نے محض آبی رکاوٹ کو عبور کرنے کا بندوبست کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہیں اسی فن تعمیر کے نادر نمونوں میں ڈھال دیا جس کیلئے یہ شہر ممتاز ہے۔ زار پیٹر کے بعد آنےوالے ہر فرمانروا نے اس کی تعمیراتی عظمت میں اضافہ کیا، لیکن اس اہتمام کےساتھ کہ شہر کی شخصیت مسخ نہ ہونے پائے۔ اس شہر کا نام سینٹ پیٹر کی نسبت سے رکھا گیا جو مسیحی مذہبی تصورات کی رو سے جنت کا داروغا ہے اور جنت کی چابیاں اِسی کے پاس ہوتی ہیں۔ اس شہر بے مثال میں عظیم الشاں عجائب گھر، شاندار گرجا گھر، سحر زدہ کرکے رکھ دینے والے محلات اور ایسے پل ہیں جنہیں فن تعمیر کا نادر نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس شہر نے تعمیر اور تخریب کے کئی ادوار دیکھے۔
1747, 1737, 1736 اور 1748 میں شہر میں بڑے پیمانے پر آتشزدگی کے واقعات ہوئے۔ اس شہر نے بالشوک انقلاب کی مارا ماری بھی سہی۔ دوسری جنگ عظیم میں تو نازی حملہ آوروں نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ سُرخ انقلاب کے بعد اس شہر کا نام لینن گراڈ رکھ دیا گیا تھا۔ جرمن فوج کے محاصرے میں اس شہر میں دوسری جنگ عظیم کا سب سے خونی معرکہ لڑا گیا۔ لیکن بربادی کے ان تمام ادوار سے اُبھر کر یہ شہر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے اور یہ سب اس شہر اور روس کے باسیوں کی وجہ سے ہے جو اپنے شہر کی شخصیت کو مسخ نہیں ہونے دینا چاہتے۔ سینٹ پیٹرز برگ کا تذکرہ ایک مثال کے طور پر کیا گیا ہے ورنہ لندن، روم، بارسلونا، انقرہ، پیرس، میڈرڈ، ماسکو، برلن اور نہ جانے کتنے ہی ایسے شہر دنیا کے طول و عرض میں آباد ہیں جو اپنی الگ پہچان کےساتھ اپنے شہریوں کیلئے فخر کا باعث ہیں۔
پاکستان کا ذکر ہو تو لاہور ہی ایک ایسا شہر نظر آتا ہے جو اپنے غیر معمولی تاریخی پس منظر کے باعث ایک الگ شخصیت اور ماحول رکھتا ہے۔ لاہور مُغل سلطنت کا اہم شہر رہا، یہاں سکھوں نے حکومت کی اور پھر تاج برطانیہ کے زیر نگیں رہا۔ ہر دور میں اِس شہر میں تعمیرات کا سلسلہ چلتا رہا لیکن ہر حاکم نے کوئی عمارت تعمیر کرتے ہوئے شعوری طور پر شہر کے مزاج کا خیال رکھا۔ اگر ہم تاریخ کے تمام ادوار کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ لاہور کی عمارتوں میں اینٹوں کی چُنائی سے خدوخال اُبھارنے کا رجحان غالب رہا۔ مغل طرز تعمیر کے زیر اثر چھوٹی اینٹ کی چنائی سے معجزہ¿ فن کے مظاہر جابجا موجود ہیں۔ اس دور کی عمارتوں میں اینٹوں کا سرخ رنگ غالب ہے خواہ تعمیر میں پتھر استعمال ہوئے ہوں۔ جب یہاں انگریزوں کا اقتدار قائم ہوا تو انہوں نے بھی وکٹورین طرز تعمیر اور مغل فن تعمیر میں موافقت تلاش کرنے کی کوشش کی۔
اسی لیے اکثر لاہور کی عمارتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انڈو۔ گاتھک (Indo-Gothic) طرز تعمیر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن ریلوے ہیڈکوارٹرز، جی پی او بلڈنگ، لاہور ہائی کورٹ، عجائب گھر کی عمارت اور پرانی ٹولنٹن مارکیٹ اس کی شاندار مثالیں ہیں۔ لاہور شہر پر گزرنےوالے ان ادوار نے لاہور کی شخصیت کا مستحکم تعارف، ایک الگ رنگ اور منفرد پہچان فراہم کردی تھی۔ طرز تعمیر کا یہ شاندار ورثہ اس بات کا متقاضی تھا کہ شہر میں تعمیر ہونےوالی اہم عمارتیں اسی طرز تعمیر کی پیروی کرتے ہوئے بنائی جائیں اور ایسا ہوا بھی۔ الحمراءآرٹس کونسل اور علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ اس شعوری کاوش کے ثبوت ہیں لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بعد میں ہونےوالی تعمیرات میں اس اصول کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔
گزشتہ دس پندرہ برس میں اس شہر کے لوگوں کی سہولت کیلئے بہت سے انڈر پاسز اور اوور ہیڈ بریج تعمیر کیے گئے جو لاہور کے تعمیراتی مزاج سے موافقت نہیں رکھتے۔ سہولت میں جدت لانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا لیکن ظاہری شکل و صورت میں تاریخی حوالوں سے شہر کے عمومی مزاج سے موافقت کا اہتمام کرنے میں کیا قباحت ہے۔ انتہائی عُجلت میں جو کچھ تعمیر کیا گیا ہے بالکل سپاٹ اور چکنی سطح کے حامل کنکریٹ کے ڈھانچوں کے سوا کچھ نہیں۔ لاہور کی جن پُرانی عمارتوں کا ذکر ہوا ان کے پاس چلے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ محض اینٹوں کی چنائی میں ہی ایسے ایسے نمونے ابھارے گئے کہ در و دیوار آپ سے بات کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے عمارت کے سینے میں دل دھڑک رہا ہے۔
اس طویل تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پنجاب کے دارالحکومت میں ایک تعمیراتی منصوبہ اسی جوش و خروش کےساتھ تکمیل کی طرف گامزن ہے جس کی وزیراعلیٰ پنجاب شہرت رکھتے ہیں۔ یہ اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل اس لیے کھٹائی میں پڑی ہے کہ جن مقامات پر یہ منصوبہ کسی تاریخی عمارت کے سامنے سے گزر رہا ہے اعلیٰ عدالت نے وہاں کام روکنے کے احکامات جاری کررکھے ہیں۔ وجہ یہ کہ اِس پل کے دیوہیکل ستون تاریخی مقامات کے حُسن کو برباد کردیں گے۔ عدالت کا یہ موقف بالکل درست ہے۔
\
حکومت کو یہ بات منصوبہ شروع کرنے سے پہلے سوچنی چاہیے تھی۔ زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح ریل کو ہوا میں معلق کرنے کے بجائے زیر زمین ریل کے نظام کا انتخاب کیا جاتا۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس منصوبے میں کیڑے نکالنے کے بجائے کوئی حل سوچا جائے کیونکہ اس پر پاکستان کے عوام کا پیسہ خرچ ہورہا ہے۔ میرے نزدیک موجودہ صورتحال کا ایک ایسا حل ہے، جس کے ذریعے منصوبے کا روٹ بھی تبدیل نہیں ہوگا اور کوئی غیر معمولی تعمیراتی پھیر بدل بھی نہیں کرنا پڑے گا اور یہ منصوبہ اپنے مقررہ وقت میں مکمل بھی ہوجائے گا۔ شالا مار باغ ہی کی مثال لے لیں۔
ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اورنج لائن کا اسٹرکچر جب اس باغ کےسامنے تعمیر ہوگا تو باغ کے جمالیاتی حسن کے برعکس شکل و صورت، غیر موافق رنگ ڈھنگ اور ہیت کی وجہ سے باغ کے نظارے کو گہنا دے گا تو اس صورتحال میں ہم یہ کرسکتے ہیں کہ پُل کا جتنا حصہ باغ کے سامنے سے گزر رہا ہے اسے شالامار باغ کی طرز تعمیر کے رنگ میں ڈھال لیں۔ ستون کھڑے کرنے کیلئے بنیادیں تو پہلے سے موجود ہیں۔ اب جو ستون کھڑے کیے جائیں وہ گول کے بجائے مستطیل ہوں، دو ستونوں کے درمیانی فاصلے کو باغ کی طرز کی محرابوں سے ملایا جائے۔ جیسے کنگرے باغ کی بیرونی دیوار پر ہیں پُل کے کناروں پر بھی ہوں۔چھجے دار بُرجیاں اور شہد کے چھتے کے نمونے والی جالیاں، غرض باغ کی تعمیر کے ہر جمالیاتی نقش کو پُل ستونوں متعلقہ اسٹیشن پر بھی ثبت کر دیا جائے اور جہاں جہاں کام رکا ہوا ہے یہی تدبیر اختیار کی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورا منصوبہ جمالیاتی حسن کا نادر نمونہ ہوتا لیکن اگر آٹھ دس مقامات پر بھی فن تعمیر کے ایسے شاندار نمونے وجود میں آ جائیں تو لاہور کے حُسن میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا۔