بچوں کو زبان سکھانے والا روبوٹ

لندن: اس تجرباتی پروگرام کو ’روبوٹ اووٹار تھرمل انہینسڈ پروٹوٹائپ ( یا آر اے وی ای) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک تھری ڈی پرنٹڈ روبوٹ ہے جو نومولو بچے کے بستر یا پنگھوڑے کے قریب رہے گا اور یہ نوٹ کرے گا کہ بچہ کچھ جاننے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔

اس میں ایک جدید ترین الگورتھم استعمال کیا گیا ہے جو تھرمل اسکیننگ اور نیورل اسکین اور عکس استعمال کرتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر ایک فرضی کمپیوٹر کردار یا اوتار استعمال کرتا ہے۔ تین سال کی محنت اور 20 لاکھ ڈالر سے زائد رقم خرچ کرکے اسے تیار کیا گیا ہے۔

ابتدائی تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ روبوٹ کسی شیرخوار بچے کو چھ منٹ تک متوجہ رکھ سکتا ہے۔ چھ سے آٹھ ماہ کے بچے کسی آواز یا دھن پر متوجہ ہوتے ہیں ۔ اس طرح ان کے سیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے اور کسی زبان سیکھنے کی پہلی بنیاد بنتا ہے۔ اسے تعلیمی دماغی ماہر ڈاکٹر لارا این پٹیٹو نے تیار کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ روبوٹ خود انسانوں کی طرح سیکھتا ہے اور بالکل ایک نومولود بچے کی طرح آگے بڑھتا رہتا ہے۔

لارا کہتی ہیں کہ پیدائشی طور پر بہرے اور گونگے بچے اس روبوٹ سے فائدہ اٹھاسکتےہیں۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ فوری طور پر امریکی اشاروں کی زبان بچے کو سکھائی جائے یا پھر آگے چل کر وہ خود یہ زبان سیکھنے پر مجبور ہوں گے۔ ماہرین متفق ہیں کہ شیرخوار بچوں کا عہدِ طفلی زبان سیکھنے کے لیے سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر اس عمر میں انہیں کچھ سنائی نہ دے تو وہ زبان کیسے سیکھیں گے۔

پاکستان اور دیگر ممالک میں ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جو پیدائشی طور پر سماعت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ روبوٹ ایسے بچوں کو سیکھنے اور ان کی زندگی بہتر بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اس روبوٹ کے ذریعے بچے والدین کے بغٰیر بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے